صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت وتاریخ ایسی اہم چیز ہے، جس کی ہر دور میں ہر مسلمان مرد و زن کو ضرورت رہی ہے۔ ان بہادر و بے مثال اشخاص کی زندگی ہمارے لئے ایک نمونہ ہے۔انہی اشخاصؓ کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہمارے سینوں میں اسلام کی مشعل روشن کی۔۔۔انکی سیرت و تاریخ کا ہر پہلو خواہ وہ صحابیتؓ کے حوالے سے ہو،خلافت کے حوالے سے ہو،علم وقضا ہو،خواہ طب و حکمت سے متعلق ہو،یقیناً امت اسلامیہ اس پر فخر کر سکتی ہے اور کرتی رہے گی۔۔۔۔
ان مطہر نفوس کی زندگی کا ہر پہلو ہر دور اور ہر نسل وقوم کیلئے مشعل راہ اور مینارۂ نور رہا ہے، ہر نسل و قوم نے ان سے ایمان،تقوی،جہاد و قوت،حکم وعدل نیز احسان و اکرام اور حکمت وتدبر کا خزینہ حاصل کیا ہے۔ وہ مینارۂ اسلام کیسے نہ ہوں جبکہ وہ حق کے حقیقی اہل اور رشد و ہدایت کیلئے سبیل ہیں۔اُنہی نفوس قدسیہ میں ایک عظیم المرتبت شخصیت خلیفہ راشد امیرالمومنین مراد مصطفیٰﷺ،امام عادل، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہیں۔
1-امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمیدہ ۔۔۔!!!
حضرت سیدنا عمر فاروقؓ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے۔قرآن پاک کے متعدد احکامات آپؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ آپؓ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے۔آپؓ نے اپنی زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ فیضان نبوتﷺ سے سیرابی میں بسر کیا مگر محتاط مزاج کی بنا پر احادیث کی روایت بہت کم فرماتے،فقہ اور اجتہاد میں بلند مقام رکھتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ(رضوان اللہ عنہم)جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جاکر ملتے ہیں، آپؓ کے تربیت یافتہ تھے۔ آپؓ کے تفقہ کی صداقت کی گواہی اس مشہور واقعہ سے ملتی ہے کہ ایک یہودی اور منافق میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا۔ انہوں نے آپﷺ سے فیصلہ کروایا۔رسول کریمﷺ نے بیانات کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ وہ منافق حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس آیا کہ آپؓ فیصلہ فرما دیں مگر جب آپؓ کو معلوم ہوا کہ حضور نبی کریمﷺ مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا۔ قرآن کریم نے سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ حضور نبی کریمﷺ کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔ (تاریخ اسلام)
2-حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کا علمی مقام ومرتبہ !!
اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے فرامین،آپؓ کے خطوط، آپؓ کے خطبات اور توقیعات، اب تک سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جن سے آپؓ کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحرو تقریر کا ایک اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ( بصرہ کے گورنر) کے نام آپؓ کے ایک خط کے چند کلمات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
’’اما بعد (اے ابوموسیٰؓ !) عمل کی مضبوطی یہ ہے کہ آج کا کام، کل پر نہ اٹھاکر رکھیں، اگر ایسا کرو گے تو تمہارے پاس بہت سارے کام اکٹھے جمع ہوجائیں گے اور تم پریشان ہو جاؤ گے، پہلے کس کام کو کریں اور کس کام کو چھوڑ دیں اس طرح کچھ کام نہیں ہوسکے گا‘‘۔۔۔فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں۔ اسی طرح آپؓ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔
3-امیرالمومنین ؓ کی فتوحات اور طرز حکمرانی۔
آپؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ آپؓ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح کئے۔ آپؓ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900جامع مساجد اور 4 ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال اور عدالتیں قائم کیں، عدالتوں کے قاضی مقرر کئے۔ آپؓ نے سن تاریخ کا اجراء کیا جو آج تک جاری ہے ۔ مردم شماری کرائی،نہریں کھدوائیں،شہر آباد کروائے،دریا کی پیداوارپرمحصول لگایا اورمحصول مقرر کئے، تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔ جیل خانہ قائم کیا، راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، تنخواہیں مقرر کیں، پرچہ نویس مقرر کئے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے لئے مکانات تعمیر کروائے۔ گم شدہ بچوں کی پرورش کے لئے روزینے مقرر کئے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ مکاتب و مدارس قائم فرمائے۔معلمین اور مدرسین کے مشاہرے مقرر کئے۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔وقف کا طریقہ ایجاد کیا،مساجد کے آئمہ کرام اور موذنین کی تنخواہیں مقرر کیں،مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ علاوہ ازیں آپ رضی اللہ عنہ نے عوام کے لئے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات اور اصطلاحات جاری کیں۔ (تاریخ اسلام )
4-حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی تمنائےِ شہادت۔۔۔!!!
حضرت عمر فاروقؓ کو پورا یقین تھا کہ انہیں شہادت نصیب ہو گی۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ جبلِ احد پر چڑھے۔اُن کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت عمر فاروقؓ،حضرت عثمان غنیؓ بھی تھے،پہاڑ لرزنے لگا۔حضور نبی کریمﷺ نے پہاڑ پر اپنا پائے اقدس مار فرمایا۔اے احد! ٹھہر جا۔تجھ پر اس وقت ایک نبیﷺ، ایک صدیقؓ اور دو شہیدؓ موجود ہیں۔(بخاری شریف)
بخاری شریف میں روایت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت اسلم رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امیر المؤمنینؓ شہادت کیلئےدعافرمایا کرتےتھے۔دعاکا ترجمہ !اے اللہ!مجھے اپنے راستےمیں شہادت نصیب فرما،مجھےاپنےرسولﷺ کےشہرمیں موت نصیب فرما۔ایک روایت میں ہے کہ اے اللہ! میں تیرے راستے میں کٹ مرنے کی درخواست کرتا ہوں،تیرے پیارے نبیﷺ کےشہرمیں موت چاہتا ہوں، اس پر ام المؤمنین سیدہ حفصہؓ نے عرض کیا ابا جانؓ !یہ کیسے ممکن ہو گا۔۔؟؟ امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظمؓ نے فرمایا اگر اللہ چاہے گا تو اس کے اسباب فراہم کر دے گا۔ (الطبقات الکُبریٰ )
5-حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کا مدینہ منورہ میں آخری خطبہ۔۔۔!!!
حضرت سیدناعمرفاروقؓ نے23ہجری21 ذوالحجہ کو اپنی زندگی کا آخری خطبۂ جمعہ ارشاد فرمایا۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اس خطبے کے بعض اقتباسات نقل فرمائے ہیں ۔اس خطبۂ میں حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے ایک خواب کا بھی تذکرہ فرمایااور اس کی از خود تعبیر بھی فرمائی۔ انہوںؓ نے فرمایا میں نے ایک خواب دیکھا ہے میرا خیال ہے کہ یہ میرا پیغامِ وفات ہے،میں نےدیکھا کہ ایک مرغ نے مجھے دو دفعہ چونچ ماری ہے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ سرخ رنگ کا مرغا تھا میں نے اسماء بنت عمیسؓ کے سامنے اُسے بیان کیا تو وہ کہنے لگیں؛ تمہیں عجمی آدمی قتل کرے گا اور فرمایا: پوری قوم مجھے اپنے بعد خلیفہ کے تعین کا مشورہ دیتی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالی اپنے دین اور منصبِ خلافت کو ضائع نہیں فرمائے گا اور نہ اس شریعت کو کوئی گزند پہنچے دے گا جسے اللہ کے رسولﷺ لیکر تشریف لائے۔اگر میرا وقت اجل آن پہنچا ہے تو خلافت کا معاملہ ان چھ آدمیوں (حضرت عثمان ذوالنورینؓ،حضرت علی المرتضیؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ،حضرت زبیر بن عوامؓ،حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ رضی اللہ عنھم)کے سپرد ہو گا جن سے نبی کریمﷺ بوقتِ وفات راضی تھے۔( مسلم شریف،مسند احمد )
6-حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت ۔۔۔