کچھ افراد کو سفر کے دوران سر چکرانے اور متلی کا سامنا کیوں ہوتا ہے؟

انسانوں کو گاڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ عرصے نہیں ہوا مگر موشن سکنس نامی عارضے کا سامنا لوگوں صدیوں سے کر رہے ہیں۔

2 ہزار سال قبل یونانی سائنسدان بقراط نے لکھا تھا کہ ‘سمندر میں سفر کے دوران جسم کو موشن سکنس کا سامنا ہوتا ہے’۔

واضح رہے کہ گاڑی، کشتی یا طیارے میں سفر کے دوران لوگوں کو متلی، قے، سر چکرانے اور دیگر مسائل کا سامنا ہو تو اسے موشن سکنس کہا جاتا ہے۔

اگر آپ بھی ان میں سے ہیں تو گاڑی میں سفر کے دوران متلی یا قے کی شکایت غیرمعمولی بات نہیں۔

کچھ افراد تو ٹی وی پر ہی سر چکرانے والے مناظر یا چلتی گاڑی کا تصور کرنے پر اس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں۔

ویڈیو گیمز کھیلتے یا ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹس کے استعمال کے دوران بھی کچھ افراد کو موشن سکنس کا سامنا ہوتا ہے۔

مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اس سے سب افراد کیوں متاثر نہیں ہوتے؟

موشن سکنس کیا ہے؟

ر کچھ ایسے خوش قسمت افراد بھی ہیں جن کو اس قسم کی شکایت نہیں ہوتی، وہ گاڑی میں چاہے جہاں مرضی بیٹھ کر گھنٹوں سفر کریں، ایسا لگتا ہے کہ انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔

مگر یہ فرق کیوں؟ تو اس کا جواب ابھی تک کسی کو معلوم نہیں۔

درحقیقت ابھی تو اس کے درست میکنزمز کا تعین تو نہیں ہوسکا مگر اس بارے میں مختلف خیالات موجود ہیں۔

سب سے قابل قبول خیال یہ ہے کہ موشن سکنس کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب ہماری حسیں دماغ کو متضاد پیغامات بھیجتی ہیں۔

مثال کے طور پر آپ کسی جھولے میں بیٹھے ہیں جو اوپر نیچے گھوم رہا ہے تو ہماری آنکھیں ایک چیز کو دیکھتی ہیں، مسلز کسی اور چیز کو محسوس کرتے ہیں جبکہ اندرونی کان کو بالکل مختلف احساس ہوتا ہے۔

ہمارا دماغ ان متضاد سگنلز کو برداشت نہیں کرپاتا جس کا نتیجہ سر چکرانے یا متلی کی شکل میں نکلتا ہے۔

ماہرین کے خیال میں موشن سکنس کے مسئلے میں اندرونی کان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ یہ توازن کے احساس کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اندرونی کان vestibular system نامی نیٹ ورک کا حصہ ہوتا ہے اور یہ سسٹم جسم کے اردگرد کے بارے میں تفصیلات دماغ کو بھیجتا ہے۔

اس خیال کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ ایسے افراد جن کے اندرونی کان کے نظام کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچے تو انہیں کبھی موشن سکنس کا سامنا نہیں ہوتا۔

تو کچھ افراد کو اس کا سامنا کیوں ہوتا ہے اور کچھ کو کیوں نہیں ہوتا؟

ویسے تو بہت زیادہ تیزی سے حرکت کرنے پر لگ بھگ ہر فرد کو اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے مگر کچھ افراد میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

مردوں کے مقابلے میں خواتین کو موشن سکنس کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے۔

ایسے شواہد موجود ہیں کہ ہارمونز میں اضافے یا کمی کے باعث خواتین میں یہ خطرہ بڑھتا ہے۔

اس سے ہٹ کر دیگر عارضے جیسے آدھے سر کے درد اور ورٹیگو وغیرہ کے شکار افراد کو بھی موشن سکنس کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔

بچوں میں بھی یہ امکان زیادہ ہوتا ہے خاص طور پر 6 سے 9 سال کی عمر کے بچوں، لڑکپن میں یہ خطرہ گھٹ جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گاڑی کے ڈرائیورز کو موشن سکنس کا سامنا نہیں ہوتا اور ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دماغ پہلے سے حرکت کے لیے تیار ہوتا ہے، جس کے باعث دیگر مسافروں کے مقابلے میں ڈرائیور کو اس کا تجربہ عموماً نہیں ہوتا۔

کن سواریوں میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟

ہر طرح کے سفر یعنی گاڑی سے سڑک پر، کشتی سے پانی میں یا طیارے سے فضا میں سفر کے دوران اس کا سامنا ہوسکتا ہے۔

کئی بار تو جھولوں سے بھی لوگوں کو اس بیماری کی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

ادویات کے بغیر بچنا کیسے ممکن؟

امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق ویسے تو بہترین حل موشن سکنس کا باعث بننے والے حالات سے بچنا ہے مگر سفر کرتے ہوئے ایسا کافی مشکل ہوتا ہے۔

سی ڈی سی کے مطابق ان حالات میں چند عام طریقوں سے موشن سکنس کی شدت کو کم یا اس سے بچنا ممکن ہوسکتا ہے۔

یہ طریقے درج ذیل ہیں۔

گاڑی یا بس کی اگلی نشست پر بیٹھنے کو ترجیح دیں۔

طیارے اور ٹرین میں کھڑکی کے ساتھ والی نشست کا انتخاب کریں۔

اگر ممکن ہو تو لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں۔

پانی کی مناسب مقدار کا استعمال کریں جبکہ چائے یا کافی سے گریز کریں۔

سفر سے قبل زیادہ مقدار میں کھانے سے گریز کریں۔

تمباکو نوشی سے گریز کریں۔

مختلف سرگرمیوں جیسے موسیقی سن کر اپنے دھیان کو بھٹکائیں مگر مطالعہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔

گہری سانسیں لے کر خود کو پرسکون کریں یا آنکھیں بند کرکے 100 سے الٹی گننا شروع کردیں۔

کسی ساکت چیز کی جانب دیکھیں یعنی گاڑی سے آسمان کی جانب دیکھنا شروع کردیں۔

اگر ادرک موجود ہے تو اس کی معمولی مقدار کو چبانے سے بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔

پودینے کی مہک یا mint ٹافیوں کو سونگھنے سے بھی آرام مل سکتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے