بلوچستان کے سرکاری اسکولوں میں سولر سسٹمز ناکارہ، چوری اور غفلت کا شکار – تعلیم، توانائی اور فنڈنگ پر سوالیہ نشان
کوئٹہ (خصوصی رپورٹ):
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قائم سینکڑوں سرکاری اسکولوں میں حالیہ برسوں کے دوران مختلف غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے لگائے گئے شمسی توانائی (سولر انرجی) کے منصوبے بدانتظامی، چوری اور تکنیکی غفلت کے باعث بربادی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان منصوبوں پر کروڑوں روپے کی لاگت آئی، تاہم نتائج نہ صرف مایوس کن ہیں بلکہ یہ سوال بھی جنم لیتے ہیں کہ آخر ان قیمتی اثاثوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
سولر سسٹمز کی تنصیب کا مقصد اور موجودہ حالت
سولر پینلز، بیٹریاں اور جدید انورٹرز کی تنصیب کا بنیادی مقصد دور دراز علاقوں میں بجلی کی کمی کو پورا کرنا تھا تاکہ اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔ خاص طور پر موسم گرما میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے، اور ان حالات میں بجلی سے چلنے والے پنکھے، واٹر کولر، اور کمپیوٹر لیبز نہایت ضروری ہو جاتے ہیں۔
تاہم مختلف اضلاع — جیسا کہ پنجگور، تربت، لورالائی، ژوب، مستونگ، کوئٹہ،خضدار، پشین اور چمن — سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بیشتر اسکولوں میں یہ سولر سسٹمز یا تو ناکارہ ہو چکے ہیں، یا مکمل طور پر چوری ہو گئے ہیں۔ کچھ اسکولوں میں سولر پینلز دھول میں اٹے، ٹوٹے یا غیرمحفوظ انداز میں پڑے دیکھے گئے، جبکہ کئی اسکولوں میں ان کی موجودگی کا صرف ریکارڈ پر ہی ذکر ملتا ہے، زمینی حقیقت میں نہیں۔
بیٹریوں اور انورٹرز کی خرابی، تکنیکی دیکھ بھال کا فقدان
ماہرین کے مطابق، شمسی توانائی کے نظام میں بیٹریاں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں جو دن کے وقت جمع شدہ توانائی کو رات یا بجلی کی غیر موجودگی میں فراہم کرتی ہیں۔ لیکن بلوچستان میں بیشتر اسکولوں میں نصب بیٹریوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث وہ یا تو مکمل طور پر ناکارہ ہو گئی ہیں یا وقت سے پہلے خراب ہو چکی ہیں۔ کچھ اسکولوں میں چارجنگ سسٹم کے ناقص استعمال، بارش سے بچاؤ کا انتظام نہ ہونے، اور غیر معیاری وائرنگ کی وجہ سے پورا سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔
چوری شدہ آلات: کھلا سوالیہ نشان
چوری کے واقعات میں خاص طور پر پچھلے دو سالوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق کئی اسکولوں میں سولر پینلز اور انورٹرز رات کی تاریکی یا اسکول بند ہونے کے دنوں میں نکال لیے گئے۔ مقامی افراد نے بتایا کہ ان مہنگے آلات کو بعض اوقات مقامی مارکیٹوں میں فروخت کرتے دیکھا گیا، جس سے اس بات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ اندرونی ملی بھگت، خاص طور پر نچلے درجے کی انتظامیہ، ان چوریوں میں ملوث ہو سکتی ہے۔
ہیڈ ماسٹرز اور اسکول انتظامیہ کی کوتاہی
سولر سسٹمز کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اسکول انتظامیہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور تربیت کی کمی بھی قرار دی جا رہی ہے۔ متعدد ہیڈ ماسٹرز، پرنسپلز اور درجہ چہارم کے ملازمین کو نہ تو اس ٹیکنالوجی کا فہم ہے اور نہ ہی ان کی تنصیب کے بعد کسی قسم کی ٹریننگ دی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیٹریاں وقت پر چارج نہیں ہوئیں، پینلز کی صفائی نہ ہوئی، وائرنگ میں خرابی کو بروقت ٹھیک نہ کیا گیا اور سسٹمز غیر فعال ہو گئے۔
محکمہ تعلیم اور ڈونر اداروں کی خاموشی
اب تک اس حوالے سے محکمہ تعلیم بلوچستان یا ان ڈونر اداروں کی جانب سے کوئی سنجیدہ قدم یا تفتیش سامنے نہیں آئی۔ نہ ہی اسکولوں کے سسٹمز کی مرکزی سطح پر کوئی انسپیکشن ٹیم تشکیل دی گئی اور نہ ہی ناکامی کے اسباب پر کوئی جامع رپورٹ جاری کی گئی۔ یہ صورتحال فنڈنگ کے شفاف استعمال، کارکردگی کے جائزے اور منصوبوں کی پائیداری پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرتی ہے۔
نتائج: تعلیم کا متاثر ہونا اور وسائل کا ضیاع
بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں پہلے ہی تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اکثر کلاسز گرمیوں میں بند ہو جاتی ہیں یا اساتذہ غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ کمپیوٹر لیبز جو ان سولر سسٹمز پر انحصار کرتی تھیں، اب مہینوں سے بند پڑی ہیں۔ بچوں کی تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تربیت اور ماحول دوست توانائی کے فروغ جیسے مقاصد بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔
عوامی مطالبات اور ممکنہ اقدامات
فوری آڈٹ اور تحقیقات کی جائیں کہ کتنے اسکولوں میں سسٹمز چوری یا ناکارہ ہو چکے ہیں۔
تمام ضلعی افسران تعلیم کو پابند کیا جائے کہ وہ اسکولوں کا سروے مکمل کر کے رپورٹ پیش کریں۔
سولر سسٹمز کی دیکھ بھال کے لیے مقامی سطح پر ٹیکنیکل اسٹاف یا NGOs کے ساتھ معاہدے کیے جائیں۔
اسکول ہیڈز کی ٹریننگ کروائی جائے تاکہ وہ بنیادی مرمت اور سسٹم کی حفاظت کو یقینی بنا سکیں۔
چوری اور غفلت میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں جہاں تعلیم پہلے ہی بحران کا شکار ہے، وہاں جدید ٹیکنالوجی کے یہ قیمتی منصوبے محض ضیاع اور بدعنوانی کی مثال بن کر رہ جائیں گے۔ حکومت، NGOs اور عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ وہ فوری توجہ دیں تاکہ یہ نظام بحال ہو سکے اور مستقبل میں اس قسم کے منصوبوں کی پائیداری یقینی بنائی جا سکے۔