ڈاکٹر عابد میر
پچھلے دنوں کسی درسی کتب میں "توتا” کی یہ املا زیربحث رہی۔ کئی دوستوں نے ٹیگ کیا، کچھ نے پرسنل میسجز بھی کیے۔ جنھیں بتایا کہ یہی درست املا ہے تو وہ مزید چیں بہ جبیں ہوئے کہ اچھا ہم کیا بچپن سے غلط پڑھتے رہے؟ تو انھیں بتایا کہ ہاں بھائی ہم سب غلط پڑھتے رہے، اب درستی کا موقع ملا ہے تو اصلاح کر لیں، اس میں برا کیا ہے۔ (اب دیکھیے، آپ نے اکثر یہ لفظ درستگی پڑھا ہو گا، جب کہ اصل لفظ درست سے درستی ہے، اسی طرح ناراض سے ناراضی نہ کہ ناراضگی)۔

ایسے کئی الفاظ ہیں جن کی املا یا تلفظ ہم بچپن میں غلط پڑھتے رہے۔ جیسے سکول کے زمانے میں ہم ایک لفظ پڑھتے تھے: مینہ (بارش) اور اس کا تلفظ "مینا” پڑھتے تھے (مینا برس رہا ہے) جب کہ اس کی درست املا "مینھ” ہے اور درست تلفظ Menh. (نون ساکن کے ساتھ)۔ اب یہ دلچسپ بات ہے کہ مینھ برستا ہے اور بارش برستی ہے۔

اسی طرح 6 کو ہم ساری عمر "چھ” لکھتے، پڑھتے رہے، اب پتہ چلا اس کی درست املا تو "چھے” بنتی ہے۔ چھ لکھنے سے اس کا تلفظ Chahh ہو جائے گا، جیسے بھ، ٹھ وغیرہ۔

اس سارے قصے میں ایک اہم بات یہ تھی کہ توتا والی درسی کتاب کی تصویر شیئر کرنے والے تقریباً سبھی لوگوں نے اس کا ٹھٹھا اڑایا، طنز کیا، طعنے دیے۔ کسی نے جاننے کی غرض سے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ ان میں سے درست املا کون سی ہے؟ نہ کسی نے لغت سے رجوع کیا، نہ کوئی علمی دلیل مانگی، نہ انٹرنیٹ پہ سرچ کرنے کی زحمت کی۔ جواز بس ایک ہی تھا: ہم نے تو بچپن سے طوطا پڑھا ہے (اور جو ہم نے بچپن سے پڑھا ہے وہ بھلا غلط کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ نصاب سازی دراصل ایسے ہی ذہن سازی کرتی ہے)۔ اگلی بات یہ کہ توتا کی یہی املا ثابت ہو جانے پر بھی کسی نے اپنی رائے سے رجوع نہیں کیا نہ اپنی غلطی ثابت ہونے پر کسی ندامت کا اظہار کیا۔ یہی سوشل میڈیا کا علمی معیار ہے۔

چلیے، کم از کم اسی سے سیکھ لیں کہ سوشل میڈیا سے لے کر نصاب تک میں غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے، اسی لیے رائے دیتے ہوئے حتمیت سے ہمیشہ گریز کریں۔ طنز اور طعنے کی بجائے انکسار سے کام لیں۔ یہ یقین رکھیں کہ ہم اور آپ بھی غلط ہو سکتے ہیں، ہم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ غلطی تسلیم کرنا، اسے درست کرنے کا اولین مرحلہ ہے۔ اور علم، ہمیشہ کچھ نیا سیکھتے رہنے کا ہی نام ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے