ہ نارتھ پول بچا نہ ساؤتھ ۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء سے یورپ اور امریکا تک۔ ناقابل برداشت گرمیاں اور سردیاں، ہیٹ ویوز، گلیئشیرز پگھلنا ، سیلاب، تباہی، قدرتی آفات، ہلاکتیں اور کروڑں لوگوں کی ہجرت سنگین حالات کا اشارہ اور نئے عزم کا متقاضی ہے۔
انٹرنیشنل ٹمپریچر تیزی سے 1.5 ڈگری کی طرف گامزن ہے، دنیا کا گلوبل وارمنگ سے گلوبل بوائلنگ کی طرف بڑھنا عالمی اداروں کا شکست کا اعتراف ہے کہ عالمی برادری کلائمٹ چینج کے چیلنج کا مقابلہ کرنےمیں ناکام ہو گئی ہے۔
یورپ اور امریکا نے ماضی میں ہماری قیمت پر ترقی کی معراج حاصل کی، لیکن منزل پر پہنچ کر ہمیں بھول گئے۔ اگرچہ کلائمٹ چینج سے پاکستان اور دیگر غریب ممالک کا کوئی لینا دینا نہیں، لیکن نتیجہ بھگتنے والوں کی فہرست میں ہم سب سے اوپر ہیں۔ ہر سال ماحولیاتی کانفرنسز ہوتی ہیں، لیکن دنیا ہمارے نقصانات کا ازالہ کرنے پر توجہ نہیں دے رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اپنا حق یعنی کلائمٹ جسٹس مانگتے ہیں خیرات نہیں کہ دنیا اس معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو۔ اب کلائمٹ جسٹس کے اصول کے تحت تباہی کا شکار ممالک کی مالی تلافی کا وقت ہے تاکہ بے قصور اورنقصان اٹھانے والے بے حال معاشرے پھر سے پاؤں پر کھڑا ہونا شرووع کریں۔
آج 8 ممالک پر مشتمل ڈیڑھ ارب آبادی والے جنوبی ایشیاء کے 75 کروڑ افراد کسی نہ کسی طرح کلائمٹ چینج کی زد میں ہیں۔ یہ خطہ پہلے ہی بھوک و افلاس اور غربت کی گرفت میں ہے اور اب اس پر جنگ کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور دریاؤں کا پانی بند کرنا دراصل پانی کو بطور واٹر بم استعمال کرنے کی دھمکی ہے۔ دنیا کو اس واٹر ٹیرر ازم کی طرف بھی فوری توجہ دینی ہو گی۔
آج کرہ ارض جس قدر ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین خطرات سے متاثر ہو ر ہا ہے وہ سائنس دانوں کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 200 سال پہلےعالمی درجہ حرارت منفی 0.8 ڈگری تھا جو اب بڑھ کر 1.2 ڈگری پر آن پہنچا ہے۔ دنیا تیزی سے 1.5 ڈگری کے خطرے کے نشان کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے بعد موسمیاتی آفات کی شدت اور کثرت کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرس بھی دنیا پر واضح کر چکے ہیں کہ "گلوبل وارمنگ” کا دورختم اور "گلوبل بوائلنگ” کا عہد شروع ہو چکا ہے۔
30 مئی 2025 کو سوئٹزر لینڈ میں پیش آنے والا واقعہ ایک اور لمحہ فکریہ ہے۔ زمین پر جنت کہلانے والے سوئس الپس میں خوفناک قدرتی آفت نے سب کو چونکا دیا ہے۔ وادی لوٹسچینٹل کے قریب بلیٹن نامی گاوں اُس وقت مکمل طور پر تباہ ہو گیا جب بہت بڑا گلیشیئر ٹوٹ کر برف، کیچڑ اور چٹانوں کے ملبے کے ساتھ تیزی سے نیچے آیا اور پورے گاوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گاؤں کے قریب ندی بھی ملبے سے بھر گئی ہے جس سے دریا کا قدرتی بہاو رک گیا ہے اور ممکنہ سیلاب کا خطرہ ہے۔ سوئس وزیر ماحولیات البرٹ روسٹی بہت پریشان ہیں تو ماہرین کلائمٹ چینج اس کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی اشارہ قرار دے رہے ہیں۔
جنوبی ایشیاء بھی گلیشیئرز پھگلنےکے خطرات سے دور نہیں۔
2021 میں یونیورسٹی آف لیڈز کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ہمالیہ کے گلیشیئرز سے برف پگھل رہی ہے جو "پچھلی صدیوں کی اوسط شرح سے کم از کم 10 گنا زیادہ” ہے۔
ہفتہ کو پاکستان میں عید ہے۔ ہمارے اجتماعی شعور کا تو یہ عالم ہے کہ ان تین دنوں کے دوران کراچی سے پشاور اور گلگت سے گوادر تک ہر طرف پلاسٹک بیگز کا ہی راج رہتا ہے۔ سستے اور کم وزن ہونے کے باعث عید سے پہلے ان پلاسٹک بیگز کا کاروبار بھی خوب چمک جاتا ہے، لیکن ہم یہ غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ شاپنگ بیگز گلتے ہیں اور نہ سڑتے ہیں، کئی ماہ بعد بھی زمین کی تہہ سے باہر نکالیں تو اپنی اصل شکل میں رہتے ہیں۔ ایک طرف ماحول کو تباہ کرتےہیں تو دوسری جانب نالوں اور سیوریج لائنز کو بند کردیتے ہیں۔ سنگل یوز پلاسٹک سے سیوریج سسٹم تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ پلاسٹ بیگز پر ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔ ایک منٹ میں دنیا میں ایک ملین پلاسٹک کی بوتلیں خریدی جاتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے دس بڑے دریا نوے فیصد سے زیادہ کوڑا ہرروز سمندروں میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ جو پلاسٹک برتن کھانے پینے میں استعمال ہوتے ہیں اس کے ذریعے ہرروز ستر ہزار مائیکرو پلاسٹک کھا جاتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک کی قیمت پر ترقی کے بعد خود کو مہذہب کہلانے والی دنیا کلائمٹ چینج کے چیلنج کا مل کر مقابلہ کرے اور اس کو ختم کرنے کے طریقہ کار کے بارے سوچے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
آج ضرورت ہے اُس فہم و فراست، تدبر، اجتماعی دانش اور شعور کی جس کی مدد سے دنیا کلائمٹ چینج کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے۔
کلائمٹ چینج نارتھ پول اور ساؤتھ پول کی تفریق نہیں کرتی، اس لئے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے قول و فعل میں تضاد ختم کر کے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت وقت پر کرنا ہو گی ۔ دنیا ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اس نہج پرپہنچ چکی ہے جہاں سے آسانی سے واپسی ممکن نہیں۔ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کےلئے فوری اجتماعی اقدامات اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا بھی وقت آگیا ہے کیونکہ ہمیں بچانے کے لئے کسی اور سیارے سے کوئی مسیحا نہیں اترے گا۔
دنیا کے لئے فیصلہ کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
آج "عالمی یومِ ماحولیات ” پر کرہ ارض ہم سے سوال پوچھ رہا ہے:
"میرے بچو۔ مجھے بچانے کے لیے کیا کیا؟
زمین چیخ رہی ہے، لیکن ہم سننے سے انکاری ہیں
آج کا دن ایک "ٹرینڈ”نہیں، بلکہ وارننگ ہے
ہمیں لائف اسٹائل بدلنا ہو گا
اگر ہم نے آج نہیں سوچا، تو کل بہت دیر ہو جائے گی
زمین ہم سے پوچھے گی:
"تم کہاں تھے جب میں تڑپ رہی تھی؟
تب کیا ہمارے پاس جواب ہوگا؟