13 جون کو ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ آبنائے ہرمز، جو عالمی توانائی کی رسد میں اہمیت کی حامل ہے، بند ہو سکتی ہے۔

یہ ایک اہم سمندری راستہ ہے جو مشرق وسطی میں تیل کی دولت سے مالامال ممالک کو ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ سمیت دیگر دنیا تک ایندھن پہنچانے کے لیے نہایت اہم ہے۔

لیکن یہ ایک ایسا مقام بھی ہے جو دہائیوں سے مقامی تنازعوں کا مرکز رہا ہے۔

آبنائے ہرمز کے متعلق مزید جاننے سے قبل آپ کو بتاتے چلیں کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد پیر کے روز عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ایشیا میں کاروبار کے آغاز پر برینٹ خام تیل کی قیمت دو ڈالر سے زیادہ یعنی 2.8 فیصد بڑھ کر 76.37 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ امریکی خام تیل کی قیمت بھی تقریباً دو ڈالر بڑھ کر 75.01 ڈالر ہو گئی۔

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

یہ اضافہ جمعے کے روز سات فیصد قیمت بڑھنے کے بعد ہوا۔

آبنائے ہرمز کہاں واقع ہے اور اتنی اہم کیوں ہے؟

خلیج فارس اور خلیج عمان کے بیچ واقع آبنائے ہرمز ایران اور عمان کی سرحد کے درمیان موجود ہے جو ایک مقام پر صرف 33 کلومیٹر چوڑی ہے۔

اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی عالمی تیل کی رسد کا پانچواں حصہ اسی راستے سے گزرتا ہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران جیسے ممالک سے تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی برآمد کرنے والا ملک قطر بھی اپنی برآمدات کے لیے اسی گزر گاہ پر انحصار کرتا ہے۔

1980 سے 1980 تک جاری رہنے والی ایران اور عراق کی جنگ کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی تیل کی رسد اور برآمدات کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس تنازع کو اسی وجہ سے تاریخ میں ’ٹینکر جنگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ایران

،تصویر کا کیپشن1980 سے 1980 تک جاری رہنے والی ایران اور عراق کی جنگ کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی تیل کی رسد اور برآمدات کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس تنازع کو اسی وجہ سے تاریخ میں ’ٹینکر جنگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے

اور اسی لیے بحرین میں تعینات امریکی بحریہ کے فلیٹ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ تجارتی بحری جہازوں کی حفاظت کرے۔

آبنائے ہرمز بند ہونے سے کیا ہو گا؟

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کر دے تو عالمی تیل کی 20 فیصد رسد متاثر ہو گی۔

جون میں جے پی مورگن نامی عالمی ادارے نے خبردار کیا تھا کہ ایسا ہونے سے تیل کی قیمت فی بیرل 120 سے 130 ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

بی بی سی ترکی سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر اکت لینگر کا کہنا ہے کہ ’آبنائے ہرمز کے بند ہونے کے امکانات سے ہی تیل کی قیمت پر اثر پڑنا شروع ہو چکا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس خطرے کے پیش نظر عالمی تجارتی منڈی پہلے سے ہی ردعمل دے رہی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ بند ہو جائے تو تیل کی فراہمی متاثر ہو گی اور قیمت میں اضافہ ہو گا۔‘

تاہم ایران نے اسرائیلی حملے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اس کی تیل کی رسد متاثر نہیں ہوئی۔ ایران وزارت تیل کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی حملوں میں تیل ذخیرہ کرنے والی تنصیبات یا ریفائںری کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

تاہم بعد میں ہونے والے حملوں میں ایسا ہونا ممکن ہے۔

ماضی کے تنازعات

ایران

،تصویر کا کیپشن1988 میں امریکی جنگی جہاز نے ایک ایرانی مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا جس میں 290 افراد ہلاک ہو گئے تھے

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

ماضی میں آبنائے ہرمز میں ایران اور امریکہ کے درمیان تنازع رہا ہے۔ 1988 میں امریکی جنگی جہاز نے ایک ایرانی مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا جس میں 290 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکہ نے اس وقت کہا تھا کہ اس کے بحری بیڑے نے ’غلطی سے مسافر بردار طیارے کو ایک لڑاکا طیارہ سمجھ کر‘ نشانہ بنایا تھا تاہم ایران کے مطابق یہ ’سوچا سمجھا حملہ‘ تھا۔

امریکہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کے بحری جنگی جہاز خطے میں تجارتی جہازوں کے تحفظ کے لیے موجود ہیں جنھیں ممکنہ طور پر ایرانی بحریہ نشانہ بنا سکتی ہے۔

سنہ 2008 میں امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ایرانی کشتیوں نے تین امریکی جنگی جہازوں کے قریب پہنچنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں ایرانی پاسداران انقلاب کے اس وقت کے کمانڈر ان چیف محمد الجعفری نے کہا تھا کہ اگر ان کی کشتیوں پر حملہ کیا گیا تو امریکہ جہازوں پر قبضہ کر لیا جائے گا۔

2010 میں آبنائے ہرمز میں ایک جاپانی تیل بردار ٹینکر کو نشانہ بنایا گیا جس کی ذمہ دای القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک گروہ نے قبول کی تھی۔

2012 میں تہران نے اس وقت آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی جب امریکہ اور یورپ کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ ایران کا دعویٰ تھا کہ یہ کوششیں اس کی تیل کی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو متاثر کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

سنہ 2018 میں جب امریکہ کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر پر لانے کا اعلان کیا گیا تھا تو ایرانی صدر حسن روحانی نے عندیہ دیا تھا کہ ایران آبنائے ہرمز سے گزرنے والی تیل کی رسد کو متاثر کر سکتا ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر نے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر ایرانی تیل کی برآمدات کو روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل کی رسد کو روک دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے