نور ولی خارجی کا ہندوستان اور غیر مسلم ملکوں کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حملوں کا اعلان ایک ایسا جرم ہے، جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے ،نہ اخلاقی طور پر درست ہے ،نہ ہی دنیا کے رائج قوانین اسے درست سمجھتے ہیں۔

نور ولی خارجی نے ہندوستان سے معاہدے کی دلیل یہ دی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں سے معاہدہ کیا تھا، لیکن نو رولی خارجی یہ بات چھپا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں پر حملوں کے لیے دوسرے غیر مسلموں سے معاہدہ کیا تھا۔

جبکہ نور ولی خارجی پاکستان کے 25 کروڑ مسلمانوں پر حملے کے لیے ہندوستان کے مشرکوں سے معاہدہ کر رہا ہے، جو نا جائز اور حرام ہے۔ بلکہ اس بیان کے بعد وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کا واضح مصداق بن گئےہیں:

یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ۔ اگر میں نے ان کا دور پایا توانہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔ (بخاری شریف:7432)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی جو بھی معاہدے کیے ، وہ اس مقصد کے لیے تھے کہ مسلمانوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ کبھی کبھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ جبکہ نور ولی خارجی تو مسلمانوں کے خلاف ہندووں سےمعاہدے کر رہا ہے۔

مزید ٹیکنکل پوائنٹ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی معاہدے کفار کے ساتھ کیے تو تمام معاہدے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے کیے تھے ناکہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے۔

اور اب جب انہوں نے دنیا سے معاہدے کیے ہیں کہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے تواس معاہدے کو توڑنا اور عہد شکنی کرنا اور اس عہد شکنی میں کفار سے مدد لینا اس کا تو کوئی جواز ہی نہیں اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔

اسلام کا تصورِ جہاد عدل، امن اور مظلوم کی نصرت پر قائم ہے، نہ کہ قتل و غارت اور ریاستی اداروں پر حملے۔ نور ولی کا خودساختہ “جہاد” قرآن کی اس تعلیم کے منافی ہے: “وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ” (البقرہ: 190)۔ یہ فساد ہے، نہ کہ جہاد۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “فتنے کے وقت بیٹھا شخص کھڑے سے بہتر ہے۔” نور ولی جیسے لوگ جہاد کی آڑ میں امت میں انتشار اور خونریزی پھیلا رہے ہیں۔ یہ لوگ مجاہد نہیں، دورِ جدید کے خوارج اور فتنہ پرور ہیں۔

قرآنی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا فکری خیانت ہے۔ نور ولی کا کلام آیاتِ قرآنی کی تحریفِ معنوی کا نمونہ ہے۔ ایسے گمراہ کن تاویلات دین کی خدمت نہیں بلکہ اس کی توہین ہیں۔

جہاد صرف امامِ وقت یا ریاست کی اجازت سے جائز ہے، گروہی یا ذاتی فیصلے اس کے دائرے سے خارج ہیں۔ نور ولی کی کارروائیاں فقہی اصولوں، اجماعِ امت اور اسلامی نظم کے منافی ہیں۔ یہ عمل جہاد نہیں، فتنہ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔” نور ولی گروہ بے گناہوں، نمازیوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ان کی درندگی اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اسلام قیادت میں تقویٰ، علم، عدل اور حکمت کو شرط بناتا ہے۔ نور ولی کی قیادت اشتعال، فریب اور فکری گمراہی پر مبنی ہے۔ یہ قیادت نہیں، امت کی تباہی اور نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کا عمل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے