افغانستان سے عسکریت پسندی، سمگلنگ اہم چیلنج ہیں: آئی جی ایف سی
میجر جنرل عابد مظہر نے کہا کہ شمالی بلوچستان میں 26 ایسے پروجیکٹس ہیں جو قومی اہمیت کے حامل ہیں اور ایف سی کے دستے ان پر بھی سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہی
انسپیکٹر جنرل (آئی جی) فرنٹیئر کور شمالی بلوچستان میجر جنرل عابد مظہر کا کہنا ہے کہ انہیں افغانستان کے ساتھ سرحد پر تین بڑے چیلنجز – غیر قانونی نقل و حرکت، دہشت گردوں کی سرحد پار سے دخل اندازی اور سمگلنگ – کا سامنا ہے۔
میجر جنرل عابد مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے ایک خصوصی انٹرویو میں فرنٹیئر کور کی ذمہ داریوں اور چیلنجز پر سوال کے جواب میں بتایا کہ تقریباً آٹھ سو ستر کلومیٹر کی پاک افغان سرحد کی ذمہ داری ان کی فورس کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے حال ہی میں بلوچستان کا سفر کیا اور اس دوران آئی جی فرنٹیئر کور شمالی بلوچستان سے درپیش مسائل اور چیلنجز پر تفصیلی بات چیت کی اور اہم موضوعات پر سوالات کیے۔
’اس کے علاوہ 24 اضلاع میں ایف سی بلوچستان نارتھ اندرونی سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ انسداد سمگلنگ اور منشیات بھی ایک قومی فریضے کے طور پر انجام دیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شمالی بلوچستان میں 26 ایسے منصوبے ہیں جو قومی اہمیت کے حامل ہیں اور ایف سی کے دستے ان کی بھی سکیورٹی کی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا اور سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے۔ صوبے کے جنوب میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے بلوچ جبکہ شمالی میں پشتون آباد ہیں۔
2017 میں نیم فوجی ملیشیا یعنی ایف سی کو دو انتظامی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک حصہ شمالی اور دوسری جنوبی حصے کی نگرانی کرتا ہے۔
میجر جنرل عابد مظہر نے پاکستان کی مغربی سرحد پر ایف سی کی ذمہ داری گذشتہ برس ستمبر میں سنبھالی تھی۔ ان سے قبل میجر جنرل چوہدری عامر اجمل اس عہدے پر فائز تھے۔
شمالی بلوچستان میں گذشتہ ایک سال میں کتنی کارروائیاں کی گئیں اور کتنے حملے ہوئے؟ اس سوال کے جواب میں میجر جنرل عابد مظہر نے بتایا کہ ’ان کے علاقے کے اندر خفیہ معلومات کی بنیاد پر 108 بڑی کارروائیاں ہوئیں اور الحمداللہ ان آپریشنز کے اندر ہم نے 150 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور اس کے ساتھ ایک کثیر تعداد میں سہولت کاروں کو گرفتار بھی کیا ہے۔‘
سرحدی انتظام
آئی جی ایف سی نے بتایا کہ ’فرنٹیئر کور پاک افغان اور ایران سرحد پر ایک جامع مینجمنٹ کے تحت کام کر رہی ہے، جس میں سرحدی باڑ کے علاوہ مختلف فاصلوں پر سرحدی چوکیاں، واچ ٹاورز، پوسٹس اور قلعے شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک جامع نگرانی کا نظام بھی بنایا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ایران بارڈر جس کو ہم امن کی سرحد سمجھتے ہیں، کی دونوں اطراف پاکستان اور ایرانی فورسز کی ایک مناسب تعداد میں موجود ہیں۔ ایف سی نارتھ کی تقریباً 33 فیصد فورس پاکستان افغان سرحد پر تعینات ہے ان میں تقریباً 800 کے قریب مختلف سرحدی چوکیاں اور واچ ٹاورز ہیں۔‘
سرحدی نقل و حرکت کے لیے ’ون ڈاکومنٹ رجیم‘ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’نومبر 2023 کے اندر اس نظام کے نفاذ کے بعد سے غیر قانونی نقل و حرکت اور غیر قانونی سامان کی ترسیل میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی ہے۔‘
بلوچستان میں جامع آپریشن؟
نومبر 2024 میں حکومتِ پاکستان کی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جامع آپریشن منظوری دی تھی۔ اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف نے حملوں میں ملوث کالعدم بلوچ لیبریشن آرمی کو ختم کرنے کے عظم کا اظہار کیا تھا۔
تو اس حوالے سے کیا پیش رفت ہے؟ اس سوال کے جواب میں میجر جنرل عابد مظہر نے بتایا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر پورے بلوچستان کے اندر خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں کی گئیں تاکہ ان عسکریت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفرِکردار تک پہنچائے جا سکے۔
ہمارے علاقے میں تقریباً ہم نے 85 آپریشن کیے ہیں جس میں سے تقریباً 100 کے قریب دہشت گرد کیفر کردار تک پہنچائے گئے ہیں اس کے علاوہ دہشت گردوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور بارودی مواد بھی تحویل میں لیا گیا ہے۔‘
بیرونی دخل اندازی کتنی ہے؟
آئی جی ایف سی نے اس حوالے سے کہا کہ ’فتنہ الخوارج کے مارے گئے دہشت گردوں میں سے اکثریت کی تعداد افغان تھی تاہم ان میں سے ایک تہائی پاکستانی شہری بھی ملوث تھے، جن کا تعلق مغربی اضلاع سے تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان کی پشتون امن پسند ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر سہولت کاری بھی بہت محدود پیمانے پر ہے لیکن عسکریت پسندی کے سرحد پار تربیتی کیمپس ہمارے لیے ایک پریشان کن بات ہے۔
’ہم افغان ہم منصب کے ساتھ مختلف موقعوں پر مختلف فورمز کا استعمال کرتے ہوئے ان چیزوں کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں۔ سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد جدید اسلحے سے لیس ہوتے ہیں اور یہ اسلحہ وہ ہوتا ہے جو کہ اتحادی افواج افغانستان میں چھوڑ کر چلے گئی تھیں۔‘
