ویسے تو 5 جی ٹیکنالوجی ہی ابھی دنیا کے مختلف ممالک میں دستیاب نہیں مگر ماہرین کی جانب سے اگلی نسل کی موبائل انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔
چین نے نومبر 2020 میں دنیا کا پہلا 6 جی سیٹلائیٹ زمین کے مدار میں بھیجا تھا۔
اب 5 سال بعد چین نے سیٹلائیٹ سے زمین پر 6 جی سیٹلائیٹ ٹرانسمیشن بھیج کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔
چین کی ایرو اسپیس کمپنی چینگ گوانگ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو (co) نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتے 6 جی کی آزمائش کے دوران 100 جی بی فی سیکنڈ امیج ٹرانسمیشن ریٹ سے ڈیٹا بھیجا۔
یہ گزشتہ ریکارڈ سے 10 گنا زیادہ اسپیڈ ہے۔
اس کمپنی کے جیلین 1 نامی سیٹلائیٹس کا نیٹ ورک زمین کے زیریں مدار میں موجود ہے جس میں سے ایک سیٹلائیٹ کے ذریعے کمپنی نے ایسا ممکن بنایا۔
کمپنی کے لیزر کمیونیکیشن شعبے کے سربراہ وانگ ہینگ ہانگ نے بتایا کہ 100 جی پی ایس ٹرانسمیشن اسپیڈ کے ذریعے آپ 10 مکمل فلمیں محض ایک سیکنڈ میں ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کمپنی کی جانب سے 2025 میں لیزر کمیونیکیشن کو جیلین 1 کے تمام 117 سیٹلائیٹس کا حصہ بنایا جائے گا۔
چونکہ 6 جی بی ٹیکنالوجی کے لیے زیادہ طاقتور فریکوئنسی بینڈز پر انحصار کیا جائے گا تو اس کے لیے نئے انفرا اسٹرکچر کی بھی ضرورت ہوگی۔
اس سے قبل ستمبر 2024 میں چین نے 3 اہم 6 جی ٹیکنالوجی اسٹینڈرڈز کو انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین (آئی ٹی یو) کے ذریعے متعارف کرایا تھا۔
متعارف کرائے گئے اسٹینڈرڈز کا مقصد آئی ٹی یو کے 2030 فریم ورک کے منظرنامے کو بہتر بنانا ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق 6 جی ٹیکنالوجی کے تینوں اسٹینڈرڈز کی منظوری 26 جولائی کو آئی ٹی یو کے ٹیلی کمیونیکیشن اسٹینڈرڈائزیشن سیکٹر اسٹڈی گروپ 13 کے اجلاس کے دوران دی گئی تھی۔
ہر ٹیکنالوجی کے اسٹینڈرڈز کو تشکیل دینا بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ ماہرین اور کمپنیاں ان کے ذریعے ابتدائی مسابقتی سبقت حاصل کرتے ہیں۔
ان نئے اسٹینڈرڈز میں 6 جی کے متعدد پہلوؤں جیسے کانٹینٹ ٹرانسمیشن، ڈیٹا اپ ڈیٹس اور سسٹم پرفارمنس ایسسمنٹس وغیرہ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔