جون 2025 میں ایئر انڈیا کے بوئنگ 787 جہاز کے حادثے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس اور ماہرین کے تجزیوں کی روشنی میں درج ذیل سائنسی پہلو اس افسوسناک واقعے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں:
فلپ سسٹم کا غلط استعمال:
ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ جہاز کے پر مکمل طور پر "فلاپ” نہیں تھے، جبکہ لینڈنگ گیئر ابھی تک نیچے تھا۔
یہ ایک خطرناک صورت حال ہے کیونکہ فلاپس پرواز کے دوران لفٹ (اٹھاؤ) بڑھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
اگر فلپ بہت جلدی واپس کھینچ لیے جائیں، تو جہاز کی لفٹ کم ہو جاتی ہے اور وہ زمین سے بلند ہونے میں ناکام ہو سکتا ہے۔
بھارتی ایئرلائن کی پرواز 605 اور ایئر انڈیا ایکسپریس کی پرواز 812 جیسے حادثات میں بھی ایسی ہی ایروڈائنامک غلطیاں سامنے آئی تھیں۔
تھرسٹ (انجن کی طاقت) میں کمی:
ابتدائی شواہد کے مطابق، ٹیک آف کے بعد انجن کی طاقت کم محسوس کی گئی۔ اس کی ممکنہ وجوہات میں برڈ اسٹرائیک (پرندے سے ٹکراؤ)، ایندھن کی آلودگی یا انجن میں کوئی فنی خرابی ہو سکتی ہے۔
کنٹرول لیور کی غلطی:
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کو پائلٹ نے غلطی سے لینڈنگ گیئر کی بجائے فلاپ واپس کھینچ لیا، جس سے جہاز کا توازن بگڑ گیا۔
فیصلہ سازی میں تاخیر:
ماضی میں منگلور (2010) اور کوژیکوڈ (2020) حادثات میں بھی یہی دیکھا گیا کہ پائلٹس نے بروقت "گو-اراؤنڈ” کا فیصلہ نہ کیا، جو جہاز کو بچا سکتا تھا۔
حادثے کے بعد بلیک باکس (FDR اور CVR) کی بازیابی انتہائی اہم ہے۔اس میں درج ڈیٹا سے معلوم کیا جا سکے گا کہ جہاز کے کنٹرول، رفتار، انجن پاور، اور پائلٹ کی گفتگو میں کیا کچھ ہوا۔
یہ حادثہ صرف ایک انسانی یا فنی غلطی کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ مختلف سائنسی عوامل کا مجموعہ تھا۔ جب تک ہم ان عوامل کو تفصیل سے نہ سمجھیں اور ان کی بنیاد پر عملی اقدامات نہ کریں، تب تک محفوظ پروازیں ایک چیلنج ہی رہیں گی۔ سائنسی تحقیق، تربیت، اور بہتر ڈیزائن ہی ہمارے محفوظ فضائی مستقبل کی ضمانت ہیں۔