کینیڈین حکومت کا کہنا ہے کہ آبادی کے تناسب سے تمام صوبوں، ریاستوں اور علاقوں کے لیے اسٹڈی پرمٹس کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ان صوبوں میں اسٹوڈنٹس کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جائے گی جہاں بین الاقوامی طلبا کی تعداد حد سے بڑھ گئی تھی۔ اجازت نامے کے مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تقسیم کے لیے حکومت نے صوبائی اور ریاستی حکام کو ایک واضح طریقہ کار بنانے کی ہدایت کی ہے۔ کینیڈا کی حکومت کے مطابق یہ عارضی اقدامات دو سال کے لیے ہوں گے اور سنہ 2025 کے سٹڈی پرمٹس کے اجرا سے پہلے اس پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ پالیسی کے مطابق یکم ستمبر 2024 سے ایسے تمام بین الاقوامی طلبا جو کریکلم لائسنسنگ پروگرام کے تحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ گریجوئیشن کے بعد پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ کے اہل نہیں ہوں گے۔ کریکلم لائسنسنگ پروگرام کے تحت پرائیویٹ کالجز کو متعلقہ سرکاری کالج کے نصاب کی فراہمی کی اجازت ہوتی ہے۔ حکام کہتے ہیں کہ سرکاری کالجوں کے نسبت ان کالجزکی نگرانی کہیں کم ہے، اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نئی پالیسی کے مطابق، ماسٹرز اور دیگر مختصر گریجویٹ سطح کے پروگراموں کے گریجویٹ جلد ہی تین سالہ ورک پرمٹ کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ موجودہ پالیسی کے تحت، پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ کے دورانیے کا انحصار سٹوڈنٹ کے مطالعاتی پروگرام کی مدت پر ہوتا تھا۔ اس سے ماسٹرز گریجویٹس کو کام کا تجربہ حاصل کرنے اور ممکنہ طور پر کینیڈا میں مستقل رہائش اختیار کرنے میں مشکلات پیش آتی تھیں۔ آنے والے ہفتوں میں، اوپن ورک پرمٹ صرف ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ پروگراموں کے بین الاقوامی طلبا کے شریک حیات حاصل کر سکیں گے۔ جبکہ انڈرگریجویٹ اور کالج پروگراموں میں داخل بین الاقوامی طلبا کے شریک حیات اب اوپن ورک پرمٹ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ کینیڈا کے وزیر امیگریشن مارک ملرنے کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی طلبا کی ان وسائل تک رسائی یقینی بنائی جائے جو انھیں ایک افزودہ تعلیمی تجربے کے لیے درکار ہیں۔ ملر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی طلبا کینیڈین معاشرے کی تقویت باعث ہیں مگر یہ پروگرام اتنا پر کشش ہو چکا ہے کہ اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے اس سلسلے میں کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی کا مقصد ان اقدامات کا روک تھام اور کینیڈین امیگریشن سسٹم کی سالمیت کو یقینی بنانا ہے۔