نوبل انعام یافتہ بنگلا دیش کے ماہر معیشت پروفیسر محمد یونس کو 6 ماہ قید کی سزا سنادی گئی۔

ڈھاکا کی لیبر کورٹ نے83 سالہ معروف بینکار محمد یونس کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں سزا سنائی، ان پر الزام ہےکہ وہ اپنی کمپنی میں ورکرز ویلفیئر فنڈ بنانے میں ناکام رہے، محمد یونس اور ان کے تینوں ساتھیوں پر 25 ہزار ٹکا کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔

محمد یونس اور ساتھیوں نے درخواست ضمانت دائرکی جو کہ منظور کرلی گئی، عدالت نے مجرمان کو 5 ہزار ٹکا کے عوض ایک ماہ کی ضمانت دے دی۔

سزا کے خلاف محمد یونس نے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے، محمد یونس کے حامیوں نے سزا کو سیاسی محرک قرار دیا ہے۔

پروفیسر یونس کے وکلاء کا کہنا ہے کہ انہیں لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں اور مبینہ بدعنوانی کے 100 سے زائد دیگر الزامات کا سامنا ہے۔

محمد یونس کون ہیں؟
بنگلا دیش کے چھوٹے قرضے دینے والے گرامین بینک اور اس کے بانی محمد یونس کو 2006 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

انعامات کے بارے میں فیصلہ کرنے والی سویڈن کی نوبل کمیٹی کا کہنا تھا کہ محمد یونس اور ان کے بینک کو یہ انعام غربت کے خاتمے کے لیے کام پر دیا گیا۔

محمد یونس نےگرامین بینک کو غریب افراد کو چھوٹے قرض دینےکے لیے 1976 میں قائم کیا تھا، چھوٹے قرضے دینےکے اس نظام کو ’مائیکرو کریڈٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نوبل کمیٹی کا کہنا تھا کہ دنیا میں پائیدار امن تب تک ممکن نہیں جب تک آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت سے نہ نکل سکے اور مائیکروکریڈٹ غربت سے نکلنے کا ایک راستہ ہے، مقامی سطح پر ترقی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو بھی فائدہ ہوگا۔

گرامین بینک کی جانب سے لوگوں کو غربت سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی تقلید دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی کی گئی جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔

حسینہ واجد انتظامیہ سےکشمکش
محمد یونس نے نوبل انعام حاصل کرنے کے اگلے سال یعنی2007 میں ایک سیاسی جماعت بنانےکا اعلان کیا تھا، انہوں نے سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئےکہا تھا کہ انہیں صرف دولت کے حصول میں دلچسپی ہے، تاہم پارٹی کی تشکیل کے اپنے اعلان پر وہ عمل نہیں کرسکے۔

بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد 2008 میں اقتدار میں آئیں تو پروفیسر یونس کے خلاف تحقیقات کے ایک سلسلے کا آغاز ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے