میکسیکو دنیا کا واحد ملک بننے کے لیے تیار ہے جہاں ووٹروں کو اپنے تمام ججوں کا انتخاب کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے، اگرچہ اس اقدام کے عدالتی نظام پر منفی یا مثبت اثرات کے حوالے سے شدید اختلاف رائے بھی پیدا ہوگیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکومتی اصلاحات کے بعد ووٹرز سپریم کورٹ سے لے کر نچلی عدالتوں تک ، تمام سطحوں پر ججوں کا انتخاب کریں گے، اور حکومتی موقف ہے کہ یہ اقدام تیزی سے بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور سزا سے استثنیٰ کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی محدود ہوجائے گی اور بدنام زمانہ منشیات کے بادشاہ خواکین ’ ایل چاپو’ گوزمان کے سابق وکیل جیسے متنازعہ امیدوار وں کے جج بن جانے سے عدلیہ کو بدعنوانی سے پاک کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوپائے گا۔
واضح رہے کہ میکسیکو میں اتوار کو ووٹر کئی ہزار وفاقی، ضلعی اور مقامی ججوں اور مجسٹریٹس کا انتخاب کریں گے، باقی ججوں کے لیے ایک اور الیکشن 2027 میں ہوگا۔
جج کا انتخاب لڑنے کے لیے امیدوار کے پاس قانون کی ڈگری، قانونی امور میں تجربہ ، ’ اچھی ساکھ’ اور کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا ضروری ہے۔
عدالتی کارکنوں سمیت مخالفین نے ان حکومتی اصلاحات کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہرے کیے تھے مگر ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔
28 سالہ وکیل اولمپیا روہاس لوویانو کہتے ہیں کہ ’ انصاف وہ چیز نہیں جس کے لیے آپ ووٹ دیتے ہیں، اس کے لیے تجربے اور خصوصی علم رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے،’
لیکن جج ماریا ڈیل روسیو مورالیس، جو دارالحکومت میں مجسٹریٹ بننے کی امیدوار ہیں، وہ ان انتخابات میں حصہ لینے پر خوش ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ اپنے شہر اور اپنے ملک کی بھلائی کے لیے یہ کرنا چاہتی ہیں۔
اگرچہ عدالتی انتخابات کی یہ پہلی مثال نہیٰں ہے، مثال کے طور پر، امریکا اور بولیویا میں کچھ ججوں کا انتخاب ووٹر کرتے ہیں، تاہم میکسیکو اس لحاظ سے واحد ملک ہوگا جہاں سپریم کورٹ سے لے کر ماتحت عدالتوں تک تمام ججوں کا انتخابت ووٹنگ کے ذریعے ہوگا۔
ان عدالتی اصلاحات کی حمایت موجودہ صدر کلاڈیا شینبام کے پیشرو اور سرپرست، سابق صدر آندریس مینوئل لوپیز اوبراڈور نے کی تھی، جنہوں نے عدالتی نظام کو ’ گلا سڑا ’ ، بدعنوان اور سیاسی و معاشی اشرافیہ کے مفادات کی خدمت کرنے والا قرار دیا تھا۔
میکسیکو میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جن پر کسی کو سزا نہیں ملی، جن میں 2014 میں مبینہ طور پر منشیات فروشوں اور بدعنوان حکام کے ہاتھوں ایک ٹیچر ٹریننگ کالج کے 43 طلبا کی گمشدگی بھی شامل ہے، اس بڑے واقعے میں درجنوں گرفتاریوں کے باوجود کسی کو سزا نہیں ہوئی تھی۔
نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، میکسیکو کا فوجداری انصاف کا نظام’ مجرمانہ تشدد اور سیکیورٹی فورسز کے ذریعے بدسلوکی کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے میں یکسر غیر مؤثر’ ہے۔