برطانوی حکومت نے غزہ میں وحشیانہ فوجی کارروائیوں پر اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کردیے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے غزہ میں وحشیانہ فوجی کارروائیوں پر اسرائیل کے ساتھ نئے آزادانہ تجارت کے معاہدے پر مذاکرات معطل کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں غزہ میں اسرائیلی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی شہید ہوئے ہیں اور اسرائیل نے ایک نئی زمینی کارروائی بھی شروع کردی ہے۔
برطانیہ نے منگل کو یہ بھی اعلان کیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
یہ اقدامات برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی جانب سے غزہ جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل اور مغربی کنارے میں حملوں اور چھاپوں کی مذمت کے ایک دن بعد سامنے آئے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے منگل کو اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بچوں کی تکالیف’ بالکل ناقابل برداشت’ ہیں، انہوں نے جنگ بندی کے لیے اپنی اپیل بھی دہرائی۔
واضح رہے کہ لیبر پارٹی کی حکومت کو اندرون ملک اس بات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ غزہ میں مسلسل فائرنگ اور فاقہ کشی کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کی حمایت میں کچھ نہیں کہہ رہی یا نہیں کر رہی۔
سیکریٹری دفتر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ برطانیہ کا موجودہ تجارتی معاہدہ اب بھی نافذ العمل ہے، لیکن غزہ اور مغربی کنارے میں ’ انتہائی جارحانہ پالیسیاں’ اختیار کرنے والی اسرائیلی حکومت کے ساتھ نئی بات چیت نہیں کی جا سکتی۔
ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے مسلسل تشدد کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پہلے عائد کی گئی پابندیوں کے علاوہ، برطانیہ اب مزید ’ تین افراد، دو غیر قانونی آباد کاروں کی چوکیوں اور فلسطینی کمیونٹی کے خلاف تشدد کی حمایت کرنے والی دو تنظیموں’ پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے مزید کہا کہ ’ اسرائیلی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان جارحانہ کارروائیوں میں مداخلت کرے اور انہیں روکے، اس کی مسلسل ناکامی فلسطینی برادریوں اور دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔’
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں برطانوی پابندیوں کو ’ غیر منصفانہ اور قابل افسوس’ “ قرار دیتے ہوئے کہا، ’ آج کے اعلان سے پہلے بھی، موجودہ برطانوی حکومت کی طرف سے آزاد تجارتی معاہدے کی بات چیت بالکل بھی آگے نہیں بڑھائی جا رہی تھی۔’