کراچی میں مین ناردرن بائی پاس پر ایک تیز رفتار ڈمپر نے کار کو ٹکر مار دی، جس کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کے بیٹے سمیت تین افراد جاں بحق ہو گئے۔

سرجانی تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمد علی شاہ نے بتایا کہ اتوار کی شام تین افراد ایک کار میں سفر کر رہے تھے، جب ایک تیز رفتار ڈمپر نے انہیں ہمدرد یونیورسٹی کے قریب ٹکر مار دی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچی تو کار ڈمپر کے نیچے دبی ہوئی تھی اور تینوں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو چکے تھے۔

پولیس افسر نے بتایا کہ ڈرائیور فرار ہو گیا تھا، تاہم بعد میں ملزم گل بیگ کو گرفتار کر لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جاں بحق افراد کی شناخت 60 سالہ سلمان، 35 سالہ اسامہ (سلمان کے بیٹے) اور 40 سالہ فراز سکندر کے نام سے ہوئی، ان کی لاشیں قانونی کارروائی کے لیے عباسی شہید ہسپتال منتقل کر دی گئیں۔

واضح رہے کہ کراچی میں حالیہ مہینوں میں بھاری گاڑیوں، خاص طور پر ڈمپرز اور واٹر ٹینکروں سے ٹریفک حادثات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، 2024 میں تقریباً 500 افراد جاں بحق اور 4,879 زخمی ہوئےتھے، اس صورتحال کے پیش نظر سندھ حکومت نے 14 فروری 2025 کو شہر میں بھاری گاڑیوں کی دن کے اوقات میں آمد و رفت پر پابندی عائد کی تھی، جو 18 اپریل کو مزید دو ماہ کے لیے بڑھا دی گئی تھی۔

اس پابندی کے تحت بھاری گاڑیاں رات 11 بجے سے صبح 6 بجے تک شہر میں داخل ہو سکتی ہیں، جبکہ ضروری اشیاء کی ترسیل کرنے والی گاڑیوں کو اس پابندی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

خاندانی تنازع پر 3 افراد قتل
علیحدہ سے، مین نیشنل ہائی وے پر رشتہ داروں کی آپس میں لڑائی کے دوران تین افراد کی گولی لگنے سے موت ہوگئی جبکہ دو افراد زخمی ہوئے۔

شاہ لطیف ٹاؤن کے ایس ایچ او محمد امین کھوسو نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ رزاق آباد میں ذاتی دشمنی پر رشتہ داروں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے دوران آتشیں اسلحہ کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں تین افراد کی موت اور دو زخمی ہوئے۔

ایس ایچ اور کے مطابق فائرنگ سے مرنے والے تین افراد کی شناخت 20 سالہ عثمان منصف، 25 سالہ توقیر صدیق اور 30 ​​سالہ توصیف بشیر کے نام سے ہوئی۔ جبکہ زخمیوں میں 20 سالہ نعمان بشیر اور 45 سالہ منصف لطیف شامل ہیں۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ گولی لگنے سے زخمی ہونے والے دو افراد کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) لایا گیا تھا جبکہ تیسرا علاج کے دوران دم توڑ گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے