جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے متنازع پیکا ایکٹ پر صحافیوں کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صحافت میں قدغن کو نامنظور کرتا ہوں۔
اسلام آباد میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے ’پاکستان میں میڈیا کے بحران‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ میں صحافت میں قدغن کو نامنظور کرتا ہوں، جب بھی میڈیا کے ضابطہ اخلاق کی تجویز آئی میں نے حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا اپنا ضابطہ اخلاق حکومت سے بہتر بنا سکتا ہے، میں نے ہمیشہ کہا میڈیا کا ضابطہ اخلاق بنانے کا حق نمائندوں کو دیا جائے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہر آمر نے جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ پر شب خون مارا، ماضی میں ججز کی تعیناتی میں پارلیمنٹ کا کردار ختم کیا گیا ہم نے اسے بحال کیا جب کہ 26ویں ترمیم کے نام پر جو شب خون مارا گیا ہم نے اس کا مقابلہ کیا، چھبیسویں ترمیم کے 56 جز تھے، ہم نے حکومت کو 36 جزوں سے دستبردار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹ کو آئینی طریقے سے ہم سے نہ منوا سکے تو ایکٹ کی صورت میں کر دیں، انہیں پارلیمنٹ اور آئین کی روح کا احترام نہیں، اس لیے سیاسی کھیل کھیلا گئے، اپوزیشن کو تقسیم کیا گیا، اپوزیشن اور پی ٹی آئی کو لڑانے کی کوشش کی گئی لیکن ہم سب کو ساتھ لیکر چلے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان کے دو صوبے انتظامی لحاظ سے کٹ چکے ہیں، اس وقت وہاں کوئی پولیس نہیں، مسلح گروہ گشت کر رہے ہیں، بلوچستان کی صورتحال بھی ایسی ہے، یہ اسلام آباد سے فارغ ہوں تو اس بارے میں سوچیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بچپن سے نعرہ سنتا آیا ہوں لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی، کچھ نظریے کی جنگ لڑتے ہیں کچھ اتھارٹی کی، اتھارٹی کی جنگ لڑنے والوں کے نزدیک عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں، عوامی رائے کو سیاستدان لیکر چلتے ہیں لیکن سیاستدان کو بے دخل کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے، پارلیمنٹ میں بھی دو چار آوازیں ہی بچی ہیں، ایسی مشکل میں ڈمی نمائندے عوام کا کیس نہیں لڑ سکتے، ڈکٹیٹرز نے جب بھی جمہوریت کا گھلا گھونٹا سب سے پہلے میڈیا پر شب خون مارا گیا۔