رواں سال ایران کے دارالحکومت تہران میں فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سابق سربراہ اسمٰعیل ہانیہ کی شہادت سے متعلق خفیہ رپورٹ کے مندرجات میں ان کے کمرے کا اے سی خراب ہونے، طویل عرصے سے منصوبہ بندی کرنے اور آپریشن کی پیچیدگیوں کے حوالے سے انکشافات کیے گئے ہیں۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ نے چینل 12 کی رپورٹ کے حوالے سے اسمعیل ہانیہ سے متعلق ایک خفیہ رپورٹ کے مندرجات بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حماس رہنما کی شہادت کی رات ان کے کمرے کا اے سی خراب ہوگیا تھا، اس کے بعد گیسٹ ہاؤس میں موجود ایرانی پاسداران انقلاب کے اسٹاف کی طرف سے اسے ٹھیک کرنے سے قبل انہوں نے اپنا کمرہ تبدیل کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق نئی تفصیلات گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز کے اسمٰعیل ہانیہ کو شہید کرنے کے اعترافی بیان کے بعد سامنے آئی ہیں۔
اسرائیل نے اسمعیل ہانیہ کو شہید کرنے کی منصوبہ بندی گزشتہ سال 7 اکتوبر کے بعد شروع کردی تھی۔
اسمعیل ہانیہ قطر میں مقیم تھے لیکن انہیں وہاں شہید کرنے سے مغویوں کی رہائی کے حوالے سے جاری بات چیت کو نقصان پہنچتا، اس لیے انہیں شہید کرنے کے لیے تین آپشنز زیر غور تھے جس میں ترکیہ، روس اور تہران شامل تھے جہاں وہ اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان کے ردعمل کا خطرہ تھا اور اسی طرح روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ناراضگی بھی مول نہیں لی جاسکتی تھی، اس لیے آپریشن کے لیے ایران سب سے موزوں آپشن تھا۔
اسمٰعیل ہانیہ کے شمالی تہران میں واقع پرتعیش گیسٹ ہاؤس میں بارہا ٹھہرنے کی وجہ سے ان کو اس مقام پر نشانہ بنانا آسان تھا۔
تاہم اسمٰعیل ہانیہ ایران کے مہمان خصوصی تھے جس کی وجہ سے پاسداران انقلاب کی ماہر حفاظتی ٹیم انہیں اپنے حصار میں رکھتی تھی اور اس لیے انہیں ہدف بنانے کے لیے گہری سطح کی دراندازی کی ضرورت تھی۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل ابتدائی طور پر اسمعیل ہانیہ کو تہران میں سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی نماز جنازہ کے دوران شہید کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
تاہم نماز جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور اس طرح کسی بھی کارروائی میں معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے خدشے کے باعث منصوبے کو عین موقع پر مؤخر کردیا گیا تھا۔
اسرائیل نے اس کے بعد آپریشن کے لیے 2 ماہ سے زائد کا انتظار کیا جب وہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے۔
ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری سے قبل ان کو شہید کرنے کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی تاہم بعد میں آپریشن کو تقریب کے بعد تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں ایک اہم وجہ ایران کو مزید ہزیمت اور شرمندگی سے بچانا تھا۔
تقریب سے کچھ وقت قبل ہی ایجنٹوں نے ان کے کمرے میں بیڈ کے قریب ایک ’آئی ای ڈی ڈیوائس‘ (دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد) نصب کردی تھی۔
طے کردہ منصوبے کے تحت دھماکے سے کچھ دیر قبل اسمٰعیل ہانیہ کے کمرے کا اے سی خراب ہوگیا جس کی وجہ سے شہید رہنما اپنے کمرے سے باہر چلے گئے۔
وہ اپنے کمرے سے کافی وقت کے لیے باہر گئے کہ اسرائیل کو یہ محسوس ہوا کہ انہیں ایک مختلف کمرے میں منتقل کیا جارہا ہے جس سے پورے آپریشن کے ناکام ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
تاہم کچھ وقت بعد اے سی کو ٹھیک کردیا گیا اور اسمعیل ہانیہ واپس کمرے میں آئے، رات ایک بج کر 30 منٹ کے قریب دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئے۔
اہم شخصیات اور حساس مقامات کے حفاظتی امور کے ماہر تجزیہ کاروں نے اسرائیلی میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ کسی ایرانی شہری، پاسداران انقلاب کے اہلکار یا حماس کے عہدیدار کی مدد کے بغیر ایسی پیچیدہ کارووائی ناممکن تھی۔