اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنماؤں شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ، احمد چٹھہ و دیگر کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

پی ٹی آئی رہنماؤں شیر افضل مروت، شیخ وقاص، عامر ڈوگر اور دیگر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جج ابو الحسنات ذوالقرنین کے سامنے پیش کیا گیا۔

کمرہ عدالت میں کارکنوں کے شور پر جج اور شیر افضل مروت نے وکلا کو حاضرین کو خاموش کرانے کی ہدایت کی۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ کوئی شور یا بات نہیں کرے گا، وکلا دلائل دیں گے۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ان پر کیا الزام ہے؟ جس پر پراسکیوشن نے شیر افضل مروت اور شیخ وقاص پر درج ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔

اس سے قبل عدالت کے باہر شیر افضل مروت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی اسلام آباد اور مجسٹریٹ کو شرم آنی چاہیے اور پولیس کا غیر قانونی استعمال کر کے ان کا امیج خراب کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سنگجانی کا مقدمہ جو بنایا گیا اس پر آئی جی کو شرم آنی چاہیے لیکن بس ایک کال کی دیر ہے پھر نا کہنا۔

اس موقع پر شیر افضل مروت نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ریمانڈ چاہیے؟ ہم بالکل شارٹ کرتے ہیں، ہم کوئی مقابلہ ہی نہیں کرتے، یہاں عدالت میں کوئی پولیس ہے جو وہاں موقع پر موجود ہو، مدعی یا کوئی گواہ عدالت میں موجود ہی نہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ دو دن پہلے اتنا بڑا واقعہ ہوا لیکن میڈیا میں کوئی خبر ہی نہیں آئی، ہمارے پاس جلسے کی تمام فوٹیجز موجود ہیں، یہ کہتے ہیں علی امین گنڈاپور نے ڈی ایس پی کی کنپٹی پر کلاشنکوف رکھی، اگر پولیس والے سچ بولتے ہیں تو یہ قرآن پر حلف لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ دن پہلے یہ میری گرفتاری کے لیے آئے تھے، میں نے ان کے ساتھ جو کیا تھا وہ پارلیمان میں بھی بتایا تھا، یہ صرف اتنا ہی حلفاً کہہ دیں کہ یہ ایف آئی آر آج صبح درج نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جلسے کے لیے ان سے کئی بار درخواست دی، ہائی کورٹ کے حکم پر جلسے کی اجازت ملی، جس دن جلسے کا این او سی ملا اسی دن پورے اسلام آباد کو بند کیا، شاید آپ کا بھی تجربہ ہوگا۔

شیر افضل مروت نے مزید کہا کہ میں اپنے کارکنوں کے ساتھ ایف-8 مرکز سے جارہا تھا لیکن کوئی راستہ کھلا نہیں تھا، ان کے پاس سوائے زبانی الزامات کے کوئی شواہد نہیں ہے، آئی جی نے رات کو پریس ریلیز جاری کرکے کہا کہ جلسے کا ٹائم بڑھ گیا تو ہم کارروائی کریں گے۔

عدالت میں مکالمہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر اسلام آباد پولیس کا بڑی بے دردی سے استعمال ہوا، میں جج اور وکیل رہا ہوں، کیا میں پولیس پر پستول رکھوں گا، پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گھر میں اسلام آباد پولیس نے چوری تک کی لیکن ان کا پورا کیس زبانی الزامات پر مبنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں جلسہ تھا وہاں میڈیا موجود تھا، زیادہ رش کی وجہ سے میری سانس رک رہی تھی تو ایک کارکن کو مکا مارا اور یہ بات بھی میڈیا میں چلی، ان کے ساتھ اتنا بڑا واقعہ ہوا مگر میڈیا کو پتا ہی نہیں۔

جج ابوالحسنات ذولقرنین نے شیر افضل مروت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپکا مکا تو ویسے بھی مشہور ہے۔

شیرافضل مروت نے مزید کہا کہ پولیس تو جلسہ گاہ میں آئی ہی نہیں اور ان کا جلسہ گاہ میں کیا کام، انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ جلسہ گاہ میں ہوا ہے، اگر جلسہ گاہ میں ہوا تو علی امین اور ہم سب اسٹیج پر موجود تھے مگر کسی کو پتا ہی نہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ نے گن مین سے اسلحہ چھین کر پولیس کی کنپٹی پر رکھا ہو۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے کہا کہ چیف منسٹر بھی تو بڑا اہم ہے جس پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ کہتے ہیں شعیب شاہین نے ڈی ایس پی کی کنپٹی پر پستول رکھا، شعیب شاہین تو بٹیر نہیں رکھتا، پستول کہا سے رکھے گا، وہ شریف آدمی ہے، میں پستول رکھتا ہوں کیونکہ میں دشمن دار آدمی ہو مگر جلسہ گاہ میں میرے پاس پستول نہیں تھا۔

دوران سماعت جج نے شیر افضل مروت سے سوال کیا کہ آپ کی دشمنی ریاست سے ہے یا کسی اور کے ساتھ ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ریاست سے ابھی بن رہی ہے۔

شیر افضل مروت نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ہائی کورٹ سے سزا یافتہ شخص ہے جبکہ آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ یہ پیٹو ہیں۔

انہوں نے مکالمہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کی عدالت میں پی ٹی آئی کے کتنے لوگوں کو لایا گیا لیکن وہ یہاں سے بری ہوگئے، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ روزنامچہ بھی دو دن تک روک لیے گئے، اس کا کیا کریں کہ ابھی کچھ ہوا نہیں اور آپ بندے کو گرفتار کرلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے حلقے کے 10 لاکھ لوگوں کا نمائندہ ہو، یہاں اور بھی عوامی نمائندے ہیں، زین قریشی، نسیم شاہ، عامر ڈوگر و دیگر لوگوں کے نمائندے یہاں موجود ہیں، کل جب یہ پارلیمنٹ آئے تو ہم 300 لوگ تھے اور ڈھائی سو پولیس والے تھے، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ان سے دو دو ہاتھ کرلیتے ہیں مگر انہوں نے بات نہیں مانی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے