پاکستان کو آزاد ہوئے تقریباً 77 برس کا عرصہ بیت چکا اور اس دوران جہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے حکومتیں بنیں وہیں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومتوں کو اپنی مدت مکمل کرنے کے دوران مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جمہوری حکومتوں کو یا تو صدر مملکت نے ختم کر دیا یا پھر فوجی آمروں نے ان کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا۔

لیکن اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وہ پہلی حکومت تھی جسے اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے باہر کیا تھا تاہم اس معاملے پر بھی پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں پر اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی حمایت کا الزام عائد کیا۔

مئی 2023 میں نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئی اور مختلف شہروں میں ناصرف نجی و سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کی بلکہ کور کمانڈر ہاؤس، جناح ہاؤس اور متعدد پولیس اسٹیشنوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔

جون 2023 میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی زیر صدارت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت وجود میں آئی اور پھر انوار الحق کاکڑ کی نگران حکومت کے بعد فروری 2024 میں دوبارہ سے شہباز شریف ملک کے وزیراعظم بنے، اس بار ان کی حکومت کو پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی حمایت حاصل تھی۔

الیکشن کمیشن نے فروری 2028 کے انتخابات سے چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے ان کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی۔

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو آزاد امیدوار قرار دیتے ہوئے مخصوص اور اقلیتی نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کر دیں۔

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تاہم پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، پاکستان تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کی سماعت کے لیے 13 رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا۔

چند روز قبل 12 جولائی کو سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلےکالعدم قرار دیتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو واپس کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

آج وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کر دی ہے۔

آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک کتنی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان
جولائی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں پابندی عائد کردی گئی۔

1951 میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا الزام میجر جنرل اکبر خان پر عائد کیا گیا جنہیں مبینہ طور پر اس وقت یو ایس ایس آر (موجودہ روس) کی حمایت حاصل تھی۔

اس سازش کے الزام میں جنرل اکبر، ان کی اہلیہ، نامور شاعر فیض احمد فیض اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید سجاد ظہیر سمیت متعدد افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی
پہلے پاکستانی فوجی صدر ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔1964 میں ایوب حکومت نے ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے کر اہم رہنماؤں کو گرفتار کرلیا اور دفاتر کو سیل کردیا۔ بعد ازاں جماعت اسلامی کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جس نے پابندی ختم کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو بحال کردیا۔

عوامی لیگ

26 مارچ 1971 کو اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب کا عدم تعاون تحریک کا اقدام بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، شیخ مجیب اور ان کی جماعت نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی۔

جنرل یحییٰ کا کہنا تھا شیخ مجیب نے ملک میں حکومت کے ہوتے ہوئے ایک متوازی حکومت چلانے کی کوشش کی، انہوں نے ملک میں تشدد اور عدم استحکام کو ہوا دی، مشرقی پاکستان میں تعینات فوجیوں پر طعنے کسے گئے اور ان کی تذلیل کی گئی۔

نیشنل عوامی پارٹی
نیشنل عوامی پارٹی 1967 میں مولانا بھاشانی اور خان عبدالولی خان کی حقیقی نیشنل عوامی پارٹی سے علیحدگی کے بعد وجود میں آئی تھی۔ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو بنگلا دیش کے قیام کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کا نام دے دیا گیا تھا۔

نیشنل عوامی پارٹی کو 8 سال کے دوران دو مرتبہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا، پہلے 1971 میں جنرل یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائدکی جبکہ دوسری مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی۔

اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کی دوبارہ سے تشکیل کی گئی، پہلے اس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور پھر عوامی نیشنل پارٹی رکھا گیا۔

جئے سندھ قومی محاذ اریسر
مئی 2020 میں وزارت داخلہ نے جئے سندھ قومی محاذ اریسر کو ایک کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی۔

جسقم سی پیک کی مخالفت کے حوالے سے بہت مشہور تھی۔

تحریک لبیک پاکستان
حکومت پنجاب نے اپریل 2021 میں پرتشدد کارروائیوں میں متعدد پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کر دی تھی۔

صوبائی حکومت نے دہشتگردی ایکٹ 1997 کو بنیاد بنا کر تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی درخواست کی تھی، جس کے خلاف ٹی ایل پی نے درخواست دائر کی اور پھر حکومت ٹی ایل پی پر عائد پابندی اٹھانے پر رضا مند ہوگئی اور نومبر 2021 میں سعد رضوی جماعت کے سربراہ بنے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے