جرمن چانسلر اولاف شولس نے ملک کے ریاستی رہنماؤں کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ پناہ گزینوں سے متعلق طریقہ کار کا تیسرے ممالک میں جائزے کا جو عمل شروع کیا گیا ہے، وہ جاری رہے گا۔

جرمن چانسلر کا مجرموں کی ملک بدری کا منصوبہ تنقید کی زد میں

جمعرات کی شام کو برلن میں ریاستی وزرائے اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد شولس نے کہا کہ ”اس عمل کو جاری رکھنے پر پختہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

جرمنی: چاقو زنی کے واقعے کے بعد افغانوں کی ملک بدری پر غور

ان کا مزید کہنا تھا کہ دسمبر میں وفاقی اور 16 ریاستی حکومت کے سربراہوں کی اگلی میٹنگ میں وہ اس حوالے سے اپنی تجاویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

نسل پرستی اور غربت میں باہمی تعلق ہے، جرمن مطالعے کے نتائج

مہاجرین سے نمٹنے کے لیے کن طریقہ کار کا جائزہ لیا جا رہا ہے؟
جمعرات کے روز ہونے والی میٹنگ سے پہلے جرمن ریاستوں کے حکمرانوں نے تیسرے ملک میں پناہ گزینوں سے متعلق طریقہ کار تلاش کرنے کے لیے ”ٹھوس ماڈلز” پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تھا۔

اسی لیے وزارت داخلہ نے تیسرے ملک میں پناہ کے متلاشیوں کے دعووں کا جائزہ لینے کے بارے میں ماہرین سے مشورہ کیا تھا۔
جس طرح برطانیہ نے پناہ گزینوں سے متعلق روانڈا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور اٹلی نے البانیہ کے ساتھ کیا ہے، جرمنی نے بھی انہیں منصوبوں کی بنیاد پر، پناہ کے طریقہ کار کے غور و خوض کا آغاز کیا ہے۔ تاہم ماہرین کی اکثریت بڑی قانونی اور عملی رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جرمنی کی جانب سے پناہ گزینوں کو تیسرے ملک میں منتقل کیے جانے کے عمل پر شکوک و شبہات اظہار کیا ہے۔

جرمنی: نومبر کے مہینے میں پناہ گزینوں کی آمد میں واضح کمی

جرمن چانسلر شولس کا کہنا ہے کہ وہ یہ قیاس نہیں کرنا چاہتے کہ جرمنی کے لیے کون سا ماڈل استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ اب اس پر مزید ”غور و خوض کے ساتھ” جائزہ لیا جائے گا۔

جرمنی نے بھی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے فعال ایجنسی کی فنڈنگ روک دی

وزیر داخلہ نینسی فیزر کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے دعووں پر تیسرے ملک کے اندر کارروائی کا طریقہ کار جرمن مائیگریشن پالیسی میں ایک ”بلڈنگ بلاک” ثابت ہو سکتی ہے۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اس سے جرمنی میں ہجرت کی صورتحال بنیادی طور پر تبدیل نہیں ہو گی اور نہ ہی ملک میں پناہ حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد پر کوئی اثر پڑے گا۔
ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی بھی ملک جرمنی میں موجود پناہ کے متلاشیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں۔

ریاستی حکمرانوں کا کیا کہنا ہے؟
چانسلر شولس کی اعتدال پسند جماعت ‘سوشل ڈیموکریٹس’ سے تعلق رکھنے والے لوئر سیکسنی کے وزیر اعظم اسٹیفن وائل سیاسی پناہ کی درخواستوں کی کارروائی کو آؤٹ سورس کرنے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماہرانہ گفت و شنید کے دوران ”سوالات کا ایک پورا سلسلہ” جنم دیا ہے۔ انہوں نے ان تمام لوگوں کو احتیاط برتنے کا بھی مشورہ دیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی تحقیقات کا مثبت نتیجہ نکلنا چاہیے۔

دوسری طرف قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے رکن اور ریاست ہیس کے وزیر اعظم بورس رائن کو یقین ہے کہ وفاقی اور ریاستی حکومتیں محض ”ماہرین کی رائے تک نہیں رکیں گی” بلکہ اب ”عمل درآمد کے لیے ماڈل اور ٹھوس تجاویز” بھی پیش کریں گی۔

رائن اس بات کے لیے کافی پر امید ہیں کہ جرمنی کے لیے قابل عمل انداز کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے، جو ایک ”سنگ میل” ثابت ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے