برطانوی پارلیمنٹ نے پیر کی رات کو تارکین وطن کو روانڈا بدر کرنے سے متعلق اس متنازعہ بل کو منظور کر لیا، جس کے تحت کچھ پناہ گزینوں کو مشرقی افریقی ملک بھیج دیا جائے گا۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں کے درمیان طویل تلخ بحث کے بعد اسے منظور کر لیا گیا ہے۔

ہاؤس آف لارڈز نے اس بل میں تبدیلی کے لیے کئی بار اسے واپس بھیجا تھا، تاہم بالآخر وہ اس میں مزید کوئی تبدیلی نہ کرنے پر رضامند ہوا اور اس طرح آخری رکاوٹ بھی ختم ہو گئی۔

تارکین وطن کے لیے سن 2023 سب سے خطرناک سال رہا، اقوام متحدہ

گزشتہ ہفتے دارالعوام کے قانون سازوں نے ہاؤس آف لارڈز میں کی گئی بعض ترامیم کو مسترد کر دیا تھا۔

کیا نوجوان جرمن ووٹر دائیں بازو کی سیاست میں پھنس سکتے ہیں؟

اس بل پر ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل ہی برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اعلان کیا کہ پناہ گزینوں کی ملک بدری سے متعلق پروازیں آنے والے مہینوں میں شروع ہونے کی توقع ہے۔

برطانیہ: تارکین وطن کی تعداد میں تشویشناک اضافہ، قوانین میں سختی کا فیصلہ

انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ”ہم پوری طرح سے تیار ہیں، منصوبے اپنی جگہ پر مکمل ہو چکے ہیں اور کسی بھی صورت میں یہ پروازیں جائیں گی۔”

نیا قانون کیا ہے؟
یہ قانون رشی سونک کی حکومت کی جانب سے برطانوی سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے کا جواب ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ پناہ کے متلاشیوں کو مشرقی افریقی ملک بدر کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

تارکین وطن کے سبب جرمن آبادی میں تین لاکھ کا اضافہ

تاہم اب یہ قانون عدالتوں کو اس بات کا پابند کر دے گا کہ وہ روانڈا کو ایک محفوظ تیسرا ملک سمجھیں اور برطانیہ کے قانون سازوں کو بین الاقوامی قانون کے ساتھ ہی انسانی حقوق سے متعلق قانون کے بعض حصوں کو نظر انداز کرنے کے اختیارات بھی دیں۔

واضح رہے کہ مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کا خیال سب سے پہلے سن 2022 میں سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے پیش کیا تھا۔

تاہم قانونی اعتراضات کے سبب بات آگے نہ بڑھ سکی اور اب اس کے لیے ایک نیا قانون تیار ہے۔
یورپ سےغیرقانونی تارکین وطن کی برطانیہ آمد میں کمی

حکمران کنزرویٹیو پارٹی بارہا تارکین وطن کی تعداد میں کمی کا وعدہ کر چکی ہے اور یہ بہت تیزی سے اس کی اہم پالیسیوں کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ توقع اس بات کی ہے کہ اس جماعت کو اگلے عام انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، جو 14 برسوں سے اقتدار میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے