اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس شروع ہوگیا۔

فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کے ججز شریک ہیں، اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر غور کیا جارہا ہے۔

خیال رہےکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خفیہ اداروں کے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق خط پر فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اس سلسلے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مشاورت بھی کی جس کے بعد فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے۔

عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت پر خط
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔

خط میں ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رہ نمائی مانگی ہے، پوچھا ہے کہ ایگزیکٹو بشمول انٹیلی جنس ایجنسیز ارکان کی کارروائیوں پر رپورٹ اور ردعمل سے متعلق جج کی کیا ڈیوٹی ہے؟ یہ کارروائیاں ایک جج کے سرکاری کام میں مداخلت کے برابر ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس اہل کاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکاناعدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے، درخواست ہے انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور ججز کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، ایسی ادارہ جاتی مشاورت عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے طریقہ کار اور عدلیہ کی آزادی کم کرنے والوں کا تعین کرنے کے میکزم بنانے میں معاون ہوسکتی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ یہ جاننا اور تعین کرنا ضروری ہے ریاست کی ایک ایگزیکٹو برانچ سے جاری پالیسی ابھی وجود رکھتی ہے، جاری پالیسی پر انٹیلی جنس اہلکار عمل درآمد کرتے ہیں جو ایگزیکٹو برانچ کو رپورٹ کرتےہیں، ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیڈ روم کی خفیہ کیمرے سے ریکارڈنگ کی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے