2 سال کی عمر میں اغوا کیے جانے والے لڑکے کی 32 سال بعد والدین سے ملاقات ہوئی جس کے جذباتی مناظر نے دیکھنے والوں کے دل پگھلا دیے۔
2 سال کی عمر میں اغوا کیے جانے والے محمد آصف نے بتایا کہ اس کے دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ کب وہ دن آئے گا جب اپنے ماں باپ کو دیکھوں گا۔
بیٹے کو والدین سے ملانے والے سماجی کارکن ولی اللہ معروف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسےکیسز میں متاثرین سے رابطے کے لیے سوشل میڈیا پر ویڈیو بناکر ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
پروگرام ’جرگہ‘ کے آغاز میں سلیم صافی نے کہا کہ آج کا جرگہ میرے لیے خوشی کا لمحہ ہے کیونکہ ایک اغوا شدہ بیٹے کی تقریباً 32 سال بعد اپنے والدین سے ملاقات ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ محمد آصف کو 1992 میں اغوا کیا گیا تھا اور والدین مسلسل اس کی تلاش میں رہے، ہمارے دفتر میں یہ ملاقات ہوئی جو ایک اعزاز ہے۔
مغوی محمد آصف کے والدین نے کہا کہ ہم نے اپنے بچے کا نام محمد صدیق رکھا تھا جب کہ اغوا کاروں نے نام بدل کر محمد آصف کردیا، یہ بری امام سے اغوا ہوا تھا، ایک دن ایسا نہیں گزرا جب ہم نے اپنے بچے کو یاد نہ کیا ہو، ہم اللہ سے صبر مانگتے رہے۔
محمد آصف کو کس نے اور کب اغوا کیا؟
محمد آصف نے بتایا کہ ’اغوا کے وقت میری عمر 2 سال تھی، مجھے ایک عورت نے اغوا کیا تھا جس کے 3 بھائی اور ایک ماں تھی، وہاں ایک اور بچہ تھا جسے 2,3 سال پہلے اغوا کیا گیا تھا، وہ میرے بڑے بھائی کی طرح تھا، اس نے مجھے بتایا کہ مجھے اغوا کیا گیا ہے‘۔
محمد آصف نے کہا کہ’وہ عورت مجھے سرگودھا کے قریب جھانوریا گاؤں میں اپنے بھائیوں کے پاس چھوڑ کر پنڈی چلی گئی، جھانوریا میں سب لوگ کہنے لگے کہ یہ 2 بچے اغوا شدہ ہیں، ان کی شکلیں آپ لوگوں سے نہیں ملتیں جس کے بعد انہوں نے وہ گاؤں چھوڑ دیا‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمیں نہیں پتا تھا کہ ہم اغوا کیے گئے ہیں، بس دل میں خیال آتا تھا کہ یہ لوگ ہم سے پیار نہیں کرتے اور مارتے پیٹتے ہیں، لوگوں سے بھی سنا تھا کہ ہمیں اغوا کیا گیا ہے، پھر ہم تحصیل بھلوال چلے گئے جہاں سے میں بھاگ کے جھانوریا چلا گیا، اس وقت میری عمر 9 سے 10 سال تھی، میں ایک وکیل کے گھر چلا گیا وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے، انہوں نے ہی میری پرورش کی اور اسکول بھیجا لیکن مجھے پڑھنے کا شوق نہیں تھا، میں نے الیکٹریشن کا کام سیکھا اور 2017 میں شادی کرلی اور اپنے پیسوں سے گھر خریدا‘۔
محمد آصف کے مطابق ’ایک دن میں ایک سنارے کی دکان پر بیٹھا تھا تو وہاں ایک بندے سے ملاقات ہوئی جس کے سامنے ذکر ہوا کہ میں اپنے والدین کی تلاش میں ہوں، پھر ان کے ذریعے سماجی کارکن ولی اللہ معروف سے ملا جنہوں نے میری نشانیاں پوچھیں اور پھر بلآخر میرے والدین سے ملوایا‘۔