سوات کے مدرسے میں تشدد سے 14 سالہ بچے کی موت کے سلسلے میں نئے انکشافات سامنے آگئے۔
پولیس کے مطابق گزشتہ دنوں سوات کے علاقے خوازہ خیلہ چالیار کے مدرسے میں استاد کے تشدد سے بچہ جاں بحق ہوگیا۔
مقتول فرحان کے چچا کے مطابق مدرسے کے مہتمم کا بیٹا مقتول سے ناجائز مطالبات کرتا تھا، فرحان مدرسے واپس جانے کو تیار نہیں تھا، چچا اپنے بھتیجے کے ساتھ مدرسے گیا اور مہتمم سے شکایت کی تو مہتمم نے معذرت کی۔
مقتول فرحان کے چچا نے بتایا کہ اسی دن نماز مغرب کے بعد مدرسے کے ناظم نے کال کر کے بتایا کہ بھتیجا غسل خانے میں گر گیا ہے، اسپتال پہنچا تو اس کی تشدد زدہ لاش دیکھی۔
یاد رہے کہ 21 جولائی کو خوازہ خیلہ اسپتال میں14سالہ فرحان کی تشدد زدہ لاش لائی گئی تھی۔
مقتول کے چچا صدر ایاز کی مدعیت میں مدرسے کے مہتمم قاری محمد عمر،اُس کے بیٹے احسان اللہ، ناظم مدرسہ عبد اللہ، اور بخت امین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ایف آئی آر میں نامزد 4 ملزمان میں سے 2 گرفتار کرلیے گئے ہیں جبکہ باقی کی تلاش جاری ہے اور ، مدرسے سے بچوں پر تشدد میں استعمال ہونے والا سامان بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔
ڈی پی او محمد عمر کا کہنا ہے کہ مقدمے میں مزید 9 افراد کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے، مدرسہ غیر رجسٹرڈ تھا، اسے سیل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے واقعے پر سیاسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
ڈی پی او کے مطابق مدرسے میں زیرِتعلیم 160 کے قریب بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ گلکدہ میں بھی مدرسے میں ایک اور بچے پر تشدد کے واقعہ پر 2 ملزمان، محمد رحمان اور عبدالسلام، کو چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔