لوئر کرم اور صدہ کے قبائل کے درمیان ایک سالہ جنگ بندی معاہدہ طے پاگیا

خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر کرم اور صدہ کے قبائل نے صدہ فرنٹیئر کور قلعہ میں منعقدہ جرگہ میں ایک سال کے لیے امن معاہدے پر دستخط کر دیے، جس میں مقامی معززین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مارچ میں، کرم ضلع کے قبائلی رہنماؤں نے عیدالفطر سے قبل آٹھ ماہ کے امن معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔

واضح رہے کہ دہائیوں پرانے زمین کے تنازعات سے جنم لینے والے تشدد نے اس حساس ضلع میں کم از کم 130 جانیں لے لی تھیں اور قبائل کے درمیان امن قائم کرنے کی متعدد کوششیں کی گئی تھیں، جنوری میں مہینوں کے تنازعے کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اشفاق خان، جنہوں نے جرگے کی صدارت کی، نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ضلع میں طویل عرصے سے جاری امن و امان کی صورتحال کے بعد انتظامیہ، سیکیورٹی فورسز، پولیس اور قبائلی رہنماؤں کی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے اور ’ لوئر کرم اور صدہ کے مقامی قبائل کے درمیان ایک سال کے لیے امن معاہدہ طے پایا۔’

جرگہ صدہ ایف سی قلعہ میں اہلِ سنت اور توری بنگش قبائل کے نمایاں سرداروں کے درمیان منعقد ہوا، جس میں ایڈیشنل ڈی سی، سیکیورٹی فورسز پولیس کے افسران اور اسسٹنٹ کمشنرز نے بھی شرکت کی۔

ڈپٹی کمشنر اشفاق خان نے بتایا کہ قبائلی عمائدین نے کوہاٹ معاہدے کی روشنی میں اس امن معاہدے پر دستخط کیے اور اس معاہدے کی تمام شرائط کو تسلیم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی رہنماؤں نے اس اقدام کو ’علاقائی استحکام کے لیے سنگِ میل‘ قرار دیا اور ترقی اور دیرپا امن کی امید ظاہر کی، انہوں نے سیکیورٹی فورسز، پولیس اور انتظامیہ کے کردار کو سراہا اور ان کی کوششوں کا اعتراف کیا۔

ٹوپکی، سمیر، گوسر، امل کوٹ، غربینہ، سنگینہ، کندیزار، منگک، ٹنگے، منڈا، ماروخیل اور لوئر کرم کے مضافات کے رہائشیوں جبکہ صدہ، کوچی، ستین، شاشو، درانی، پیر قیوم، سخی احمد شاہ، مالا کلی، چکائی کلی، جان حاجی کلی، ملک ملاجان کلی، اراولی، ماروخیل، لوئر مندوری اور ملحقہ علاقوں کے باشندوں نے اس معاہدے پر متفقہ طور پر دستخط کیے۔

اس موقع پر ڈی سی اشفاق خان نے کہا کہ کرم ضلع کی حسین و جمیل وادیوں میں امن کا قیام علاقائی عمائدین کے تعاون سے ہی ممکن ہوا ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی امن کے لیے بے پناہ قربانیاں قابلِ تحسین ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ امن کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

کوہاٹ ڈویژن میں محرم کے دوران کم از کم فوج، پولیس اور دیگر اداروں کے 10 ہزار اہلکاروں نے سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دیے تھے، جبکہ ماضی میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی وجہ سے حساس کرم ضلع کا انتظام فوج کے حوالےبھی کیا جاچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے