Breaking
28 جولائی 2025, پیر

سینیٹ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور

سینیٹ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور کرلیا گیا۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کے زیرصدارت ہوا جس میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور کرلیا گیا۔

بل کے متن کے مطابق اظہار رائے سے مراد معلومات نشر کرنے اور شائع کرنے کا حقسینیٹ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور کرلیا گیا۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کے زیرصدارت ہوا جس میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور کرلیا گیا۔

بل کے متن کے مطابق اظہار رائے سے مراد معلومات نشر کرنے اور شائع کرنے کا حق ہے، صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن کا چئیرپرسن ہائی کورٹ کا جج یا جج کی اہلیت رکھنے والا شخص ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ چیئرپرسن کے پاس پندرہ سال کا پریکٹس کا تجربہ ہو خصوصاً انسانی حقوق اور صحافیوں کے حقوق سے متعلق، کمیشن کے چیئرپرسن اور ممبران کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی اور چیئرپرسن اور رکن کی مدت تین سال کی ہو گی، جس میں توسیع نہیں ہو گی۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن صحافی یا اس کے ساتھی کا تحفظ کرے گا، جس پر اظہار رائے کی آزادی کی پریکٹس کی وجہ سے حملہ کیا جائے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ کمیشن صحافی کی بیوی، زیر کفالت افراد، ساتھی اور قریبی رشتہ داروں کا تحفظ کرے گا اور کمیشن صحافی کی پراپرٹی، اشیاء گروپ، تنظیم اور سماجی تحریک کا تحفظ کرے گا۔

بل کے متن کے مطابق ڈیوٹی ادا کرتے وقت کسی شخص کو صحافی کے خلاف پرتشدد رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، جو شخص ایسا کرے گا اسے سات سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ صحافی پر معلومات کے ذرائع ظاہر کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا، جو ایسا کرے گا اسے تین سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ صحافی کسی شخص، گروپ، محکمے یا تنظیم کے دباؤ کے بغیر آزادی سے کام کرے گا، اور جو شخص خلاف ورزی کرے گا اسے پانچ سال قید،ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

متن میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن کی جانب سے شکایت آنے پر تھانے کا ایس ایچ او ایف آئی درج کرے گا، کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کے پاس فوجداری کیسز والے اختیارات ہوں گے، اور کمیشن شکایت کرنے والے شخص کی شناخت خفیہ رکھنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔

بل کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کیسز کے لیے وفاقی حکومت اسلام آباد اور صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت سے سیشن کورٹ قائم کرے گی۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے پاس خفیہ ایجنسی کے عمل اور پریکٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہو گا، اگر شکایت درج ہو جس میں الزام ہو کہ ایجنسی انسانی حقوق سے متضاد اور برعکس اقدام کر رہی ہے تو شکایت متعلقہ اتھارٹی کے سپرد کی جائے گی۔

صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے ترمیمی بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن کاہر رکن اور اسٹاف حکومت، انتظامیہ سے آزاد ہو گا۔

ہے، صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن کا چئیرپرسن ہائی کورٹ کا جج یا جج کی اہلیت رکھنے والا شخص ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ چیئرپرسن کے پاس پندرہ سال کا پریکٹس کا تجربہ ہو خصوصاً انسانی حقوق اور صحافیوں کے حقوق سے متعلق، کمیشن کے چیئرپرسن اور ممبران کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی اور چیئرپرسن اور رکن کی مدت تین سال کی ہو گی، جس میں توسیع نہیں ہو گی۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن صحافی یا اس کے ساتھی کا تحفظ کرے گا، جس پر اظہار رائے کی آزادی کی پریکٹس کی وجہ سے حملہ کیا جائے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ کمیشن صحافی کی بیوی، زیر کفالت افراد، ساتھی اور قریبی رشتہ داروں کا تحفظ کرے گا اور کمیشن صحافی کی پراپرٹی، اشیاء گروپ، تنظیم اور سماجی تحریک کا تحفظ کرے گا۔

بل کے متن کے مطابق ڈیوٹی ادا کرتے وقت کسی شخص کو صحافی کے خلاف پرتشدد رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، جو شخص ایسا کرے گا اسے سات سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ صحافی پر معلومات کے ذرائع ظاہر کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا، جو ایسا کرے گا اسے تین سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ صحافی کسی شخص، گروپ، محکمے یا تنظیم کے دباؤ کے بغیر آزادی سے کام کرے گا، اور جو شخص خلاف ورزی کرے گا اسے پانچ سال قید،ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

متن میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن کی جانب سے شکایت آنے پر تھانے کا ایس ایچ او ایف آئی درج کرے گا، کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کے پاس فوجداری کیسز والے اختیارات ہوں گے، اور کمیشن شکایت کرنے والے شخص کی شناخت خفیہ رکھنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔
سینیٹ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور کرلیا گیا۔

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کے زیرصدارت ہوا جس میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا ترمیمی بل منظور کرلیا گیا۔

بل کے متن کے مطابق اظہار رائے سے مراد معلومات نشر کرنے اور شائع کرنے کا حق ہے، صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن کا چئیرپرسن ہائی کورٹ کا جج یا جج کی اہلیت رکھنے والا شخص ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ چیئرپرسن کے پاس پندرہ سال کا پریکٹس کا تجربہ ہو خصوصاً انسانی حقوق اور صحافیوں کے حقوق سے متعلق، کمیشن کے چیئرپرسن اور ممبران کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی اور چیئرپرسن اور رکن کی مدت تین سال کی ہو گی، جس میں توسیع نہیں ہو گی۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن صحافی یا اس کے ساتھی کا تحفظ کرے گا، جس پر اظہار رائے کی آزادی کی پریکٹس کی وجہ سے حملہ کیا جائے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ کمیشن صحافی کی بیوی، زیر کفالت افراد، ساتھی اور قریبی رشتہ داروں کا تحفظ کرے گا اور کمیشن صحافی کی پراپرٹی، اشیاء گروپ، تنظیم اور سماجی تحریک کا تحفظ کرے گا۔

بل کے متن کے مطابق ڈیوٹی ادا کرتے وقت کسی شخص کو صحافی کے خلاف پرتشدد رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، جو شخص ایسا کرے گا اسے سات سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ صحافی پر معلومات کے ذرائع ظاہر کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا، جو ایسا کرے گا اسے تین سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ صحافی کسی شخص، گروپ، محکمے یا تنظیم کے دباؤ کے بغیر آزادی سے کام کرے گا، اور جو شخص خلاف ورزی کرے گا اسے پانچ سال قید،ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

متن میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن کی جانب سے شکایت آنے پر تھانے کا ایس ایچ او ایف آئی درج کرے گا، کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کے پاس فوجداری کیسز والے اختیارات ہوں گے، اور کمیشن شکایت کرنے والے شخص کی شناخت خفیہ رکھنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔

بل کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کیسز کے لیے وفاقی حکومت اسلام آباد اور صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت سے سیشن کورٹ قائم کرے گی۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے پاس خفیہ ایجنسی کے عمل اور پریکٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہو گا، اگر شکایت درج ہو جس میں الزام ہو کہ ایجنسی انسانی حقوق سے متضاد اور برعکس اقدام کر رہی ہے تو شکایت متعلقہ اتھارٹی کے سپرد کی جائے گی۔

صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے ترمیمی بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن کاہر رکن اور اسٹاف حکومت، انتظامیہ سے آزاد ہو گا۔

بل کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کیسز کے لیے وفاقی حکومت اسلام آباد اور صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت سے سیشن کورٹ قائم کرے گی۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے پاس خفیہ ایجنسی کے عمل اور پریکٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہو گا، اگر شکایت درج ہو جس میں الزام ہو کہ ایجنسی انسانی حقوق سے متضاد اور برعکس اقدام کر رہی ہے تو شکایت متعلقہ اتھارٹی کے سپرد کی جائے گی۔

صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے ترمیمی بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن کاہر رکن اور اسٹاف حکومت، انتظامیہ سے آزاد ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے