اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی جس دوران لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دیے۔
سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا تھا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبران کے لیے بنا مگر ایف بی علی کیس میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا۔
سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: سزا تو ہونی چاہیے ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے، جج آئینی بینچ
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اب تنازع یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں ایف بی علی کیس میں سویلینزکے ٹرائل کی بھی اجازت تھی، آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ایف بی علی کیس میں کہاگیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریوو کرسکتی ہے، آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا، اس پر وکیل حامد خان نے کہا فوجی عدالتوں کےحق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے۔
اس دوران جسٹس مندوخیل نے کہا تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا ؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
اس موقع پر وکیل حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں شامل وہ شقیں جن کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیا جاتا ہے وہ غیرآئینی ہیں۔