یا منافقت! ترا ہی آسرا ہے…

تحریر: اے جلیل

کبھی ہمارے معاشرے کی بنیاد سچ، دیانت، شرافت اور خاندانی تربیت پر رکھی گئی تھی۔ ہم بچوں کو ادب سکھاتے تھے، بڑوں کے احترام کو فرض سمجھتے تھے، اور جھوٹ بولنے کو ایسا گناہ تصور کرتے تھے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا تھا۔ لیکن اب وہ دور گزر گیا — اور ایک ایسا زمانہ آ چکا ہے جہاں سچ بولنے والا بے وقوف اور جھوٹ بولنے والا چالاک سمجھا جاتا ہے۔

زمانے کا پلٹتا رخ: اقدار کا زوال

آج کا معاشرہ جدید تو ضرور ہو گیا ہے، مگر باطن سے بوسیدہ۔ ہم نے سچائی، شرافت اور اخلاق کو پرانا فیشن سمجھ کر ترک کر دیا ہے۔ اب ترقی کا مطلب ہے چالاکی، دھوکہ، خوشامد، اور مفاد پرستی۔
کہاں وہ وقت جب سچ بولنے پر شاباش ملتی تھی، اور کہاں آج جب سچ بولنے والا طنز، حقارت اور تنہائی کا شکار ہوتا ہے۔

جھوٹ: ہر طبقے میں سرایت کرتا زہر

جھوٹ اب صرف ایک عادت نہیں بلکہ ایک معاشرتی رویہ بن چکا ہے — ایک نظام، جو اوپر سے نیچے تک پھیلا ہوا ہے:

  • سیاستدان الیکشن کے دوران عوام سے ایسے وعدے کرتے ہیں جیسے وہ ان کے نجات دہندہ ہوں، مگر اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

  • سرکاری اداروں میں افسران حقائق چھپاتے ہیں، رپورٹس میں رد و بدل کرتے ہیں، اور عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد مقدم رکھتے ہیں۔

  • بازار میں دکاندار جھوٹ بول کر چیزوں کی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے، نرخ بڑھاتا ہے، اور ناقص مال کو معیاری بتاتا ہے۔

  • ایک عام درزی جو کپڑا وقت پر سلنے کا وعدہ کرتا ہے، مہینوں بعد بہانے بناتا رہتا ہے۔

  • استاد اپنے طلبہ کو محض رٹا لگوانے میں لگا دیتا ہے مگر خود سچائی اور عمل کی مثال نہیں بنتا۔

  • مذہبی رہنما بھی بعض اوقات جھوٹے خواب اور خود ساختہ تعبیرات کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

گویا جھوٹ ہر سطح پر ہمارے کردار کا حصہ بن چکا ہے — اور ہم اسے کامیابی کی کنجی سمجھ بیٹھے ہیں۔

قرآن کا حکم: جھوٹ ہلاکت ہے

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو نہ صرف ناپسند فرمایا ہے بلکہ اسے ہلاکت کی راہ قرار دیا ہے:

"فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ”
(سورۃ الحج، آیت 30)

ترجمہ:
"پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔”

یہ آیت ہمیں واضح پیغام دیتی ہے کہ جھوٹ کا تعلق صرف زبان سے نہیں بلکہ یہ ایک روحانی آلودگی ہے، جو انسان کے ایمان، اخلاق اور معاشرتی حیثیت کو گندا کر دیتی ہے۔ آج ہم اسی آلودگی میں مبتلا ہو چکے ہیں — اور شاید ہمیں اس کا احساس بھی نہیں رہا۔

ہم نے صرف "بری باتیں” اپنائیں

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے مغرب سے صرف ان کی ظاہری چمک اپنائی — فیشن، بے حیائی، انفرادی مفاد، اور مادہ پرستی — مگر ان کی اچھی باتیں جیسے:

    • قانون کی پاسداری

    • وقت کی پابندی

    • سچائی

    • صفائی

مطالعہ اور تحقیق

انہیں ہم نے نظر انداز کر دیا۔ ہم نے مغربی معاشرے کو تنقید کا نشانہ تو بنایا، مگر خود کو سدھارنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ یوں لگا جیسے ہمیں صرف "برا” ہی متاثر کرتا ہے، "اچھا” نہیں۔

آج کا سچ کل کا فخر بن سکتا ہے

اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم چاہیں تو سچائی، دیانت، اخلاص اور خلوص پر مبنی معاشرہ دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:

خود سے سچ بولنے کی شروعات کریں

    • بچوں کو تربیت کے ساتھ تعلیم دیں

    • جھوٹ کے خلاف نفرت اور سچ کے لیے محبت پیدا کریں

اور سب سے بڑھ کر، قرآنی تعلیمات کو اپنے کردار کا حصہ بنائیں

نتیجہ: سچ کا دامن تھامو، ورنہ معاشرہ بکھر جائے گا

اگر ہم نے اس زوال پذیر راستے کو نہ چھوڑا، تو سچ اور سچائی صرف کتابوں اور تقریروں تک محدود رہ جائے گی۔
ہمیں سچ کو نہ صرف بولنا ہے بلکہ جینا بھی ہے۔
ورنہ وقت آئے گا کہ لوگ طنزیہ انداز میں یہی کہیں گے:

"یا منافقت! ترا ہی آسرا ہے…”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے