کینیا وائلڈ لائف سروس کے افسران کے لیے اسمگلنگ کے چھاپے کوئی نئی بات نہیں۔ مگر جب ان افسران نے کینیا کے مغربی علاقے میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس پر کارروائی کی، تو وہ ایک ایسے معاملے کا سامنا کر رہے تھے جو بیک وقت حیران کن بھی تھا اور منفرد بھی۔
بین القوامی زرئع ابلاغ ’دی گارجین‘ کے مطابق چھاپے کے دوران وہاں سے 5,000 سے زائد زندہ چونٹیاں برآمد ہوئیں، جنہیں انتہائی احتیاط سے ٹیسٹ ٹیوبز اور سرنجز میں بند کر کے محفوظ کیا گیا تھا۔ ہر ٹیوب میں روئی موجود تھی، تاکہ چونٹیاں ہفتوں تک زندہ رہ سکیں۔ چونٹیوں کو یورپ اور ایشیا کی ’ایگزوٹک پیٹ مارکیٹس‘ میں فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
اسمگلرز کون تھے؟
یہ ساری کارروائی دو بیلجین نوجوانوں کی جانب سے کی جا رہی تھی، لورنوئے ڈیوڈ اور سیپے لوڈویجکس۔ دونوں کی عمر 19 سال تھی۔ وہ سیاحتی ویزے پر کینیا آئے، اور انہوں نے مقامی علاقوں سے چونٹیوں کی مخصوص نسلیں جمع کیں۔
اسمگلنگ کے الزام میں دونوں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے جرم کا اعتراف کیا، جس پر عدالت نے سزا سنائی، فی کس جرمانہ، 10 لاکھ کینیئن شلنگ، جوکہ تقریباً 7,600 امریکی ڈالر اور پاکستانی 21 لاکھ 58 ہزار روپے سے زیادہ بنتے ہیں، جرمانہ ہوا۔ اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں 6 ماہ قید۔
یہ فیصلہ کاکامیگا، کینیا کی عدالت نے سنایا۔ کینیا وائلڈ لائف سروس کے مطابق، یہ کیس اسمگلنگ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا جس میں اتنی بڑی تعداد میں چونٹیوں کو ضبط کیا گیا۔
چونٹیوں کی اقسام اور مارکیٹ ویلیو
ضبط شدہ چونٹیوں میں خاص طور پر’میسر سیفالوٹس’ نسل کی بڑی سرخ ہارویسٹر چونٹیاں شامل تھیں، جو مشرقی افریقہ میں پائی جاتی ہیں۔ اس نسل کی ملکہ چونٹی تقریباً 24 ملی میٹر تک لمبی ہوتی ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹس میں ان چونٹیوں کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، ویب سائٹ ’اینٹس آر اس‘ پر ایک کالونی کی قیمت 99 برطانوی پاؤنڈز، پاکستانی 38 ہزار روپے سے زیادہ میں فروخت ہوتی ہے۔
ان چونٹیوں کو چونٹیوں کے شیشے کے گھریعنی ’فورمیکیریم‘ میں رکھا جاتا ہے، جہاں شوقین افراد ان کی کالونی بنانے کی صلاحیت، خوراک اکٹھا کرنے کا طریقہ، اور باہمی سسٹم کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔
ماحولیاتی خطرات اور ماہرین کی رائے
ماہرِ حشریات ڈائنو مارٹنز کے مطابق، ’ہارویسٹر‘ چونٹیاں افریقی سبزہ زاروں کی ماحولیاتی بقا کے لیے کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ گھاس کے بیج جمع کر کے خوراک بناتی ہیں، اور کئی بار بیجوں کو راستے میں گرا کر قدرتی پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔
ایک بڑی کالونی سالانہ کئی کلو بیج جمع کر سکتی ہے، جو نہ صرف زمین کی زرخیزی میں مدد دیتا ہے بلکہ آرڈوارک، پینگولن اور دیگر جانوروں کی خوراک بھی بنتی ہے۔
بین الاقوامی خطرہ
تحقیقی جرنل میں شائع 2023 کی ایک چینی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ چونٹیوں کی غیر ملکی منتقلی انہیں invasive species میں تبدیل کر سکتی ہے، جس سے دوسرے خطوں میں ماحولیاتی تباہی ممکن ہے۔
کینیا وائلڈ لائف سروس کا کہنا ہے کہ ایسی اسمگلنگ کینیا کی ’حیاتیاتی تنوع پر خودمختاری‘ کو نقصان پہنچاتی ہے، اور مقامی تحقیق، سیاحت، اور دیہی معیشت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان چونٹیوں کی افزائش مقامی سطح پر قانونی، منظم اور پائیدار طریقے سے کی جائے، تو یہ دیہی لوگوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، جیسے کہ کینیا کے ’کی پے پیو پروجیکٹ‘ میں تتلیوں کی قانونی افزائش کی جاتی ہے۔
یہ انوکھا کیس دنیا کو بتاتا ہے کہ قدرتی زندگی کی حفاظت صرف بڑے جانوروں تک محدود نہیں۔ اب چھوٹے، نظرانداز کیے گئے جاندار، جیسے کہ ’چونٹیاں‘ بھی اسمگلنگ کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور یہ عمل نہ صرف قانون شکنی ہے، بلکہ ہمارے پورے ماحولیاتی توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔