دنیا میں روزانہ کئی افراد دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہوتے ہیں، اور خاص طور پر چھوٹے بچے اگر دل کے کسی عارضے میں مبتلا ہوں تو ان کے لیے عطیہ کردہ دل کا ملنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن حال ہی میں امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے سرجنز نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو نہ صرف طب کی دنیا میں انقلاب کا پیش خیمہ ہے بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں مریضوں کے لیے امید کی ایک نئی کرن بھی ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تین ماہ کے شیر خوار بچے کے لیے ایک ایسا دل کامیابی سے ٹرانسپلانٹ کیا جو دراصل ’مردہ‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ یعنی وہ دل ایک ایسے شخص سے لیا گیا تھا جس کا دل بند ہو چکا تھا، اور عمومی طور پر ایسے دل کو قابلِ استعمال نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن اس بار ڈاکٹروں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس ’مردہ‘ دل کو دوبارہ زندہ کیا اور پھر اسے بچے کے جسم میں لگا دیا۔
یہ کیسے ممکن ہوا؟
اس تکنیک کو ’آن ٹیبل ری اینیمیشن‘ کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں ایک خاص مشین استعمال کی جاتی ہے جو دل کو انسانی جسم سے باہر دوبارہ زندہ کر دیتی ہے۔ یعنی جب دل بند ہو چکا ہوتا ہے اور خون کی روانی رک چکی ہوتی ہے، تو یہ مشین دل کو پھر سے دھڑکانا شروع کر دیتی ہے۔ پھر دل کا تفصیلی معائنہ کیا جاتا ہے اور اگر وہ مکمل طور پر فعال ہو، تو اسے مریض کے جسم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
نتائج اور یہ کتنا انقلابی قدم ہے؟
یہ سرجری نہایت کامیاب رہی۔ چھ ماہ بعد جب بچے کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تو دل بالکل معمول کے مطابق کام کر رہا تھا اور جسم میں کسی بھی قسم کی ردِ عمل یا آرگن ریجیکشن کے آثار نہیں تھے۔
ڈاکٹر ایرون ولیمز، جو اس تحقیق کے مرکزی مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ یہ طریقہ کار دل کی پیوند کاری یعنی ’ہارٹ ٹرانپلانٹیشن‘ کے میدان میں ایک“گیم چینجر“ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک آسان بھی ہے اور لاگت میں بھی کم، اس لیے یہ دنیا بھر میں قابلِ عمل ہو سکتی ہے۔ اس سے عطیہ کردہ دلوں کی دستیابی میں 30 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے، جو ہزاروں زندگیاں بچانے کا سبب بنے گا۔
مگر؟ سوالات بھی اٹھے ہیں!!
اگرچہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ اخلاقی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ جب ایک انسان کا دل بند ہو چکا ہو اور اسے ’مردہ‘ قرار دے دیا گیا ہو، تو پھر اس کے دل کو دوبارہ زندہ کرنا اور استعمال کرنا کیا اخلاقی طور پر درست ہے؟
ان اعتراضات کے جواب میں امریکہ کی ایک اور یونیورسٹی (وینڈربلٹ) کے ڈاکٹروں نے ایک الگ طریقہ اپنایا ہے جس میں دل کو زندہ کیے بغیر محفوظ رکھا جاتا ہے اور پھر پیوند کاری کی جاتی ہے۔
یہ نئی طبی تکنیک ایک بڑی امید ہے، خاص طور پر ان خاندانوں کے لیے جن کے بچے یا پیارے دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور عطیہ کردہ دل کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ قدم بلاشبہ طب کی دنیا میں ایک نیا باب رقم کرے گا۔