بلوچستان اسمبلی، ارکان کا بجلی کی لوڈشیڈنگ پر تشویش کا اظہار، ڈپٹی اسپیکر نے کیسکو چیف اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے ذمہ داران کو طلب کرلیا
کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ارکان نے کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے کیسکو چیف اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے ذمہ داران کو طلب کرلیا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کیسکو نے زرعی کنکشنز کاٹ دیے ہیں، گھریلو صارفین کو بھی بجلی فراہم نہیں کی جارہی، جبکہ دیہی علاقوں کے ٹرانسفارمرز اتار کر کوئٹہ منتقل کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ظلم کے مترادف ہے۔ کیسکو چیف کو طلب کر کے جواب طلبی کی جائے کیونکہ وہ فیڈرز بھی ختم کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ بلوچستان میں صرف پانچ سے چھ گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے، کیسکو چیف کو بار بار بلایا جاتا ہے لیکن کوئی بہتری نہیں آتی۔
جمعیت علماء اسلام کے رکن غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ بجلی کی قلت نے عوام کی زندگی کا نظام درہم برہم کر دیا ہے، جبکہ پارلیمانی سیکرٹری صمد گورگیج نے کہا کہ کیسکو چیف کو پہلے بھی بلایا گیا مگر صورتحال بدستور خراب ہے۔
رکن اسمبلی حاجی علی مدد جتک نے اعتراف کیا کہ گزشتہ بار کیسکو چیف کی حاضری کے بعد کچھ بہتری آئی تھی لیکن اب بھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
اجلاس میں گیس کی قلت کا بھی ذکر ہوا۔ کوئٹہ کے علاقے سریاب میں عوام گیس نہ ہونے سے سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ اس پر ڈپٹی اسپیکر نے سوئی گیس کے جی ایم کو بھی اسمبلی میں طلب کر لیا۔ ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ نے ہدایت کی کہ کیسکو چیف اور سوئی گیس حکام اجلاس میں شرکت کریں اور ارکان کے مسائل سن کر فوری اقدامات کریں۔
اجلاس کے دوران جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی نے نشاندہی کی کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں افیون کی کاشت ہو رہی ہے جو آئندہ نسلوں کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف قرارداد اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔
اصغر علی ترین نے مزید کہا کہ پشین کے سول اسپتال میں سہولیات کا فقدان ہے، بیشتر مریضوں کو کوئٹہ ریفر کیا جاتا ہے، لہٰذا اسپتال کو انڈس ہسپتال کے حوالے کیا جائے۔
صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے کہا کہ حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات لا چکی ہے، اب کسی ضلع میں ادویات کی کمی نہیں، تمام ہسپتال نیم خودمختار ہیں اور ان کے اپنے بورڈز ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 1200 ڈاکٹروں کی ترقی ہو چکی ہے، اب وہ اپنے اضلاع میں ڈیوٹی انجام دیں گے۔ تمام ہسپتالوں میں کیمرے نصب ہیں، غیر حاضری پر تنخواہ نہیں دی جائے گی۔
جمعیت علماء اسلام کے رکن سید ظفر علی آغا نے ایس اینڈ جی اے ڈی سے متعلق سوالات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے، جسے ڈپٹی اسپیکر نے منظور کر لیا۔
بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 31 جولائی کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔