سونے کی دوڑ میں غائب ہوتا پانی
تحریر :- محمد اکبر نوتزئی
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی میں واقع پہاڑی قصبہ ‘کچاؤ’ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ وہی ضلع ہے جہاں اربوں ڈالر مالیت کا ریکوڈک کا تانبا اور سونا نکالنے کا منصوبہ ہے۔ حالیہ فزیبلیٹی اسٹڈی کے مطابق یہاں کے ذخائر کی مالیت 60ارب ڈالر سے زائد بتائی گئی ہے۔
اگرچہ اس طویل عرصے سے تاخیر کا شکار منصوبے سے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچنے کی امید ہے ، لیکن کچاؤ کے رہائشیوں کے لیے ایک اور زیادہ فوری اور سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ یاد رہے کہ ابتدائی مشینیں 1992 میں پہنچی تھیں، مگر قانونی، سکیورٹی اور ملکیت کے مسائل کے باعث یہاں سے پیداوار اب جا کر 2028 میں شروع ہونے کا امکان ہے۔
مقامی باشندے حمید بلوچ کے مطابق کچاؤ اپنے قدرتی چشموں کے پانی کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘‘لیکن ہمیں تشویش ہے کہ ہمارا پانی کان کنی کے منصوبے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے سے ہمارے (پانی کے )ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔’’حمید بتاتے ہیں کہ قصبے کی آبادی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں بٹی ہوئی ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں ہے۔ یہ لوگ زراعت اور مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں، اسی لیے پانی کا بحران ان کے لیے وجودی مسئلہ بن گیا ہے۔
حمید کا کہنا ہے کہ ‘‘منصوبے کے لیے کچاؤ کے رہائشیوں کی اجازت کے بغیر ہمارے علاقے میں ٹیوب ویل لگا دیے گئے ہیں۔’’وہ مزید کہتے ہیں کہ اگرچہ علاقے میں بنیادی ڈھانچے کی شدید کمی ہے، لیکن ٹیوب ویلوں تک ضرور سڑکیں بنا دی گئی ہیں۔ حمید پوچھتے ہیں کہ’’جب وہ یہاں کا سارا پانی لے جائیں گے، تو ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
ایک ختم ہوتی لائف لائن؟
مسئلہ اب واضح ہو چکا ہے، کیونکہ ضلع کے دور دراز علاقے، بشمول ضلعی ہیڈکوارٹر دالبندین، پہلے ہی صاف پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو یہ حقیقت مزید خراب کرتی ہے کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ویسے ہی بارش بہت کم ہوتی ہے۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق صوبے میں سالانہ اوسطاً 176 ملی میٹر بارش ہوتی ہے، جبکہ معدنی وسائل سے مالامال ضلع چاغی سمیت مغربی علاقوں میں یہ مقدار 50 ملی میٹر سے بھی کم ہے۔ خشک سالی یا طوفانی بارشوں جیسے شدید موسمی حالات صورتحال کو اور بھی بدتر کر دیتے ہیں ،اور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
فی الحال کچاؤ میں پانی دستیاب ہے اور خواتین اور بچے پہاڑ سے نیچے جا کر پانی لاتے ہیں، لیکن حمید کے مطابق پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے اور بعض جگہوں پر پانی کھارا ہو چکا ہے۔
دوسری جانب کینیڈین کمپنی بیرک گولڈاس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ اس کمپنی کے پاس ریکوڈک منصوبے میں 50 فیصد حصہ ہے (باقی 50 فیصد پاکستان اور بلوچستان کی حکومتوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہے)۔ کمپنی کی ترجمان سامعہ شاہ ایک ای میل میں بتاتی ہیں کہ منصوبے کے لیے ایک بڑے زیر زمین آبی ذخیرے کے ایک چھوٹے اور دور دراز حصے سے پانی حاصل کیا جائے گا، جو پہلے ہی پینے یا کاشتکاری کے لیے ناقابل استعمال یعنی بہت زیادہ نمکین ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ اس علاقے میں نہ تو کوئی انسانی آبادی ہے اور نہ ہی کوئی جنگلی حیات اس پانی پر انحصار کرتی ہے۔ ان کے مطابق آزادانہ مطالعات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ زیر زمین پانی کا تعلق سطحی ماحولیاتی نظام سے نہیں ہے اور یہ منصوبہ دوسروں کو اس ذخیرے کے استعمال سے نہیں روکے گا۔
ترقیاتی تجزیہ کار اور کتاب ’’The Economic Development of Balochistan‘‘کے مصنف سید فضل حیدر کا کہنا ہے کہ ریکوڈک منصوبے کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تقریباً 70 کلومیٹر دور ایک زیر زمین رسوبی آبی نظام (sedimentary) استعمال کیا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت چاغی میں واقع تانبے اور سونے کی کان سیندک پر گزشتہ دو دہائیوں سے جاری کان کنی کے ماحولیاتی اثرات پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
فضل حیدر کا کہنا ہے کہ ’’ایسی تحقیق کے نتائج یہ واضح کر سکتے ہیں کہ آئندہ دہائی میں ریکوڈک منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کیا ہوں گے۔‘‘
تالاپ کی راہ پر
ضلع چاغی میں تفتان کے جنوب میں پاکستان ایران سرحد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تلاپ واقع ہے۔ یہ قصبہ پچھلے دو عشروں سے سیندک منصوبے کو پانی فراہم کر رہا ہے۔ سیندک بھی ریکوڈک کی طرح اربوں ڈالر کا منصوبہ ہے، جہاں چینی کمپنیاں 2000 کی دہائی کے آغاز سے تانبا اور سونا نکال رہی ہیں۔ کچاؤ کی طرح تالاپ بھی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جس میں 50 سے زائد مکانات اور چند سو افراد کی آبادی ہے۔
مقامی کسان خدا بخش بلوچ کہتے ہیں کہ تالاپ میں پانی کی سطح نیچے جا چکی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’’سیندک منصوبے سے پہلے پانی 60 فٹ کی گہرائی پر ہوتا تھا۔ اب یہ 100 فٹ پر چلا گیا ہے، اور پہلے کی نسبت نمکین بھی ہو گیا ہے۔‘‘ خدا بخش مزید کہتے ہیں کہ قصبے کو اس منصوبے سے کچھ چھوٹے موٹے مزدورانہ کاموں کے علاوہ کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا ۔
زیادہ تر مقامی باشندے خدا بخش کی تشویش کی تائید کرتے ہیں۔ وہ خراب فصلوں، ناقص پانی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ عطااللہ کہتے ہیں کہ جب منصوبے کو پانی کی ضرورت تھی تو ہمارے ساتھ بڑے بڑے وعدے کیے گئے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’’آج تک ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا، بلکہ ہمارے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہمارا پانی صاف ہوتا تھا اور ہم گندم سمیت مختلف فصلیں اگایا کرتے تھے۔اب ہمیں (قریبی قصبے) آدھے گھنٹے کی مسافت طے کر کے وشاپ جانا پڑتا ہے، تاکہ ہاتھ گاڑیوں پر پانی لا سکیں۔‘‘
کم ہوتے وسائل، ہجرت کرتی آبادی
تالاپ اور کچاؤ کے لوگوں کو دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور کرنے والی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں تفتان سے تالاپ تک بننے والی 32 کلومیٹر طویل سرحدی دیوار بھی شامل ہے، جس نے سرحد پار روزگار کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ خشک سالی اور سیلابوں کی زد میں بھی رہتا ہے۔
نوشکی سے تعلق رکھنے والے زاہد مینگل کوئٹہ میں قائم غیر منافع بخش تنظیم ‘آزاد فاؤنڈیشن’کے سربراہ ہیں۔ وہ 2000 کی دہائی کے اوائل سے چاغی اور نوشکی جیسے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ایسی خشک سالیاں بلوچستان کے کئی حصوں کو متاثر کرتی رہی ہیں اور زراعت پر ان کے اثرات وقت کے ساتھ شدید ہوتے گئے ہیں۔‘‘
بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے شعبہ آفات سماوی کے سربراہ ڈاکٹر سید عین الدین کا کہنا ہے کہ مغربی بلوچستان، خصوصاً چاغی میں، گزشتہ کئی دہائیوں سے گہرے کنوؤں کے ذریعے پانی نکالنے اور بارش کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح میں کمی آ چکی ہے، جو خشک سالی کا باعث بنی ہے۔
حال ہی میں چاغی اور ملحقہ اضلاع طوفانی بارشوں اور اچانک آنے والے سیلابوں سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں گزشتہ سال بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق ان غیر معمولی بارشوں اور سیلابوں کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے، خصوصاً چاغی جیسے علاقے میں ، جہاں ہمیشہ بارش کم ہوتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ نہ صرف تالاپ بلکہ اس کے ارد گرد کے علاقوں سے بھی لوگ ہجرت کر رہے ہیں۔تالاپ کی رہائشی ایک بزرگ خاتون مدینہ بی بی کہتی ہیں کہ ’’ہمارے لیے یہاں کچھ بھی نہیں بچا جس سے ہم زندہ رہ سکیں۔ہمارے کھیت اور مویشی نمکین پانی کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔‘‘
اگرچہ مدینہ بی بی خود نقل مکانی کا ارادہ نہیں رکھتیں، لیکن انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔ وہ افسوس سے کہتی ہیں ’’کہوہ(بچے) پہلے روزگار کے لیے تفتان جاتے تھے، لیکن بدقسمتی سے سرحدی دیوار کی تعمیر کے بعد وہ راستہ بھی بند ہو گیا ہے۔ ‘‘
تالاپ اور کچاؤ کے لوگ اب بلوچستان کے دیگر علاقوں یا ایران میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دونوں قصبے ویرانی کا منظر پیش کرتے ہیں۔
جب میں کچاؤ کی ہوا سے تراشی گئی وادیوں میں کھڑا تھا، جہاں کبھی برف پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھوتی تھی اور چشمے امیدوں سے لبریز بہتے تھے، وہاں اب ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔یہی خاموشی تالاپ میں بھی محسوس ہوئی ۔ یہ امن کی خاموشی نہیں تھی، بلکہ ان آوازوں کی خاموشی تھی جو سنی نہ گئیں، ان وعدوں کی جو وفا نہ ہوئے، اور ان زمینوں کی جو پانی کی کمی کی وجہ سے ہو کا عالم اختیار کر چکی ہیں۔
اگر ہم نے اب بھی نہ سنا، تو چشمے ہمیشہ کے لیے سوکھ جائیں گے، لوگ غائب ہو جائیں گے، اور پیچھے صرف ایک مرتی ہوئی زمین کی ہڈیوں میں کندہ تانبے کے خواب باقی رہ جائیں گے