نصیرآباد : سرکاری اسلحہ، ایمونیشن اور مواصلاتی آلات کی خرد برد – اینٹی کرپشن بلوچستان کی بڑی کارروائی ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نصیرآباد کے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق ڈائر یکٹر جنرل اینٹی کر پشن اسٹیبلشمنٹ بلوچستان عبدالواحد کا کڑ کی ہدایت اور ڈپٹی ڈائر یکٹر انویسٹی گیشن عظیم انجم ہانبھی و انویسٹی گیشن آفیسر عبد القیوم کی نگرانی میں ایک اہم کارروائی عمل میں لائی گئی۔
یہ شکایت محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کی جانب سے موصول ہوئی جس کے ساتھ محکمانہ انکوائری رپورٹ اور دیگر شواہد پولیس اسٹیشن نصیر آباد کے انچارج (CTD) بھی منسلک تھے۔
شکایت میں الزام تھا کہ انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے اے ایس آئی عبدالمجید نے سرکاری اسلحہ، گولہ بارود، آلات اور دیگر قیمتی سرکاری اشیاء میں خرد برد کی ہے۔ محکمانہ انکوائری کے مطابق ایس او ڈبلیو نصیر آباد کو متعدد اقسام کے ہتھیار اور گولیاں سی ٹی ڈی ہیڈ کوارٹر جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی، جن میں 16 ایس ایم جیز کے ساتھ 48 میگزینز اور 5400 راؤنڈز، 10 جی تھری رائفلز کے ساتھ 20 میگزینز اور 10000 راؤنڈز، نائین ایم ایم گلاک پسٹلز کے ساتھ 1500 راؤنڈز، 5 اسالٹ رائفلز کے ساتھ 20 میگزینز، اور 20 پی کے ایس ایم جیز کے ساتھ 40 میگزینز شامل تھے۔
تاہم جب اسلحہ جمع کروایا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہایک ایس ایم جی میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، 14 میگز نیز مقامی ساختہ ہیں، ایک جی تھری رائفل میں بھی رد و بدل پایا گیا، 2 میگزینز غائب تھے، 5400 راؤنڈز کی جگہ صرف 251 ایس ایم جی راؤنڈز جمع کروائے گئے
اور 10000 جی تھری راؤنڈز میں سے کوئی بھی جمع نہ کروایا گیا۔ علاوہ ازیں، 9 ایم ایم کے 1500 راؤنڈز میں سے 22 ناقابل استعمال قرار دے کر واپس کر دیے گئے۔
مزید شواہد سے معلوم ہوا کہ واکی ٹاکی سیٹس، گولیاں اور دیگر سرکاری آلات بھی غائب یا خراب حالت میں تھے، جس سے حکومت کو تقریباً آٹھ لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔
ریکارڈ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اے ایس آئی عبدالمجید، جو سی ٹی ڈی نصیر آباد میں کوت انچارج کے طور پر تعینات تھے، اپنی تعیناتی کے آغاز سے ہی وہاں موجود رہے اور ان کے ذمے اسلحہ و گولہ بارود کی حفاظت تھی۔ انہوں نے بدنیتی سے نہ صرف سرکاری اشیاء میں خرد برد کی بلکہ اعتماد شکنی اور کرپشن میں بھی ملوث پائے گئے۔
اے ایس آئی عبد المجید کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ اس وقت اینٹی کرپشن کی حراست میں ہیں جہاں اس سے مزید تفتیش جاری ہے تاکہ متعلقہ افسر کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جا سکے۔