افغانستان میں طالبان حکومت آج ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبے کا صوبہ ہرات میں باقاعدہ افتتاح کرے گی جس کے لیے افغان صوبے میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے. تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب میں افغانستان کے وزیراعظم سمیت چیمبر آف کامرس اور وزارت پیڑولیم سمیت متعلقہ اداروں کے نمائندے شرکت کریں گے تاپی منصوبے کو پاکستان سمیت انڈیا میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے جبکہ افغانستان سے گزرنے کی وجہ سے کابل کو بھی اس کا معاشی فائدہ ملے گا.
ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے اس مشترکہ توانائی کے منصوبے کو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی طرف سے فنڈ کیا جا رہا ہے دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے تحت اگلے 30 سالوں کے لیے 33 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان اور انڈیا کو سپلائی کی جائے گی تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت 1800 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی جس میں منصوبے میں شریک تمام ممالک کی سرکاری گیس کمپنیاں بھی مدد کریں گی.
غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق اس منصوبے کے آغاز کی خبریں 1990 میں سامنے آئی تھیں لیکن اس کے لیے کنسورشیم 2014 میں بنایا گیا تھا منصوبے کے تحت ترکمانستان کی گالکینیش گیس فیلڈ سے قدرتی گیس براستہ افغانستان و پاکستان، انڈیا پہنچائی جائے گی اس منصوبے کے دستاویزی مواد کی تیاری پر کام اے ڈی بی نے 2002 میں شروع کیا تھا اور اس کا پہلا مرحلہ 2010 میں پائپ لائن کے فریم ورک معاہدے کے بعد مکمل ہوگیا اسی طرح2012 میں دوسرے مرحلے میں خریداری کا معاہدہ کیا گیا جبکہ تیسرے مرحلے میں منصوبے میں شامل ممالک کے مابین وزارتوں کی سطح پر نشستیں اور چوتھے مرحلے میں اب اس پر کام کا آغاز ہوگا.
منصوبے کے ڈیزائن کے حوالے سے پاکستان میں 2017 میں ایک افتتاحی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں افغانستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی اس منصوبے کی پاکستان کے لیے اہمیت کے حوالے سے اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بتایا تھا کہ 56 انچ پائپ لائن کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر تین ارب کیوبک فٹ گیس پاکستان اور پاکستان انڈیا سرحد تک پہنچے گی‘ منصوبے کے تحت پاکستان کو مجموعی گیس کا روزانہ ایک تہائی حصہ ملے گا، جو تقریباً 1.25 ارب کیوبک فٹ ہوگا جبکہ افغانستان کو 0.5 ارب کیوبک فٹ گیس ملے گی .
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں پر نظر دوڑائیں تو پوری دنیا گلوبلائزیشن، تجارت اور سافٹ بارڈرز کے اصول کی طرف جا رہی ہیں، جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کا تحاد آسیان ہے اور وہ ایک دوسرے سے تجارت کر رہے ہیں امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی اختلاف ضرور ہے لیکن ان کے مابین اربوں ڈالرز کی تجارت ہوتی ہے اور اسی تناظر میں پاکستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تاپی جیسے منصوبے نہایت اہمت کے حامل ہیں.
پڑوسی ممالک کے ساتھ اس قسم کے منصوبے شروع کرنا تمام ممالک کے مفاد میں ہوتے ہیں کیونکہ اس سے درآمدات و برآمدات میں آسانی ہو جاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ تاپی منصوبے میں تمام پڑوسی ممالک شامل کرنے چاہیے اور بظاہر اس سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا کیونکہ پاکستان منصوبے کے درمیان میں واقع ہے اور براستہ پاکستان ہی انڈیا تک پائپ لائن بچھائے جائے گی.
منصوبے پر دوبارہ کام کے آغاز کی بازگشت افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد شروع ہوئی تھیں اور 2022 میں افغان طالبان نے بتایا تھا کہ وہ منصوبے کی سکیورٹی پر 30 سکیورٹی اہلکار تعینات کریں گے امریکی ادارے ”جیم سٹون فاﺅنڈیشن “ کی رپورٹ کے مطابق روس نے 2023 میں اس منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا تاہم انڈیا کی جانب سے منصوبے پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا گیا جس میں پائپ لائن کا پاکستان سے گزرنا بھی شامل تھا خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے نائب صدر اور پاکستان افغانستان تجارتی امور کے ماہر و صنعت کار شاہد حسین نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی اس منصوبے کی مختلف افتتاحی تقریبات ہوچکی ہیں اور اب دیکھتے ہیں کہ اس پر عملی کام شروع ہوتا ہے یا نہیں انہوں نے بتایا کہ ترکمانستان کے پاس گیس موجود ہے اور وہ پاکستان کو اپنا کوٹہ بھی دیتا ہے چاہے ایل پی جی کی شکل میں ہو یا ڈیزل و پیٹرول کی شکل میں لیکن ایسے منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں.
انہوں نے کہا کہ ازبکستان، افغانستان و پاکستان ریلوے منصوبہ بھی التوا کا شکار ہیں اور تاجروں کو اطمینان تب ہی ہوتا ہے جب عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں افغانستان کی وزارت پیٹرولیم کے مطابق تاپی منصوبے سے ابتدا میں 400 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی اور اس سے ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا پہلے 10 سالوں میں افغانستان کو منصوبے کے تحت 500 ملین کیوبک فٹ گیس ملے گی اور اگلے 10 سالوں میں ایک ارب کیوبک فٹ گیس جبکہ تیسری دہائی میں افغانستان کو ڈیڑھ ارب کیوبک فٹ گیس ملے گی جس سے گیس سے چلنے والے صنعتوں کو فائدہ ملے گا.
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دنیا کے حالات کے مطابق چلنا ہوگا اب کوئی ملک سیکورٹی کے نام پر خود کو بند کرکے نہیں رہ سکتا ‘اگر جنگ کے دوران بھارت اور چین کی تجارت جاری رہ سکتی ہے تو پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ کئی موقعے تھے جب پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے امریکا کو آمادہ کرسکتا تھا مگر پاکستانی قیادت چھوٹے‘چھوٹے مفادات کے حصول میں مگن رہی اور جو منصوبہ ایک دہائی سے بھی پہلے مکمل ہوجانا چاہیے تھا آج صرف اس وجہ سے زیربحث ہے کہ ایران نے عالمی ثالثی عدالت میں ہرجانے کے لیے جانے کا عندیہ دیا ہے .
انہوں نے کہا کہ پاکستان آج بجلی اور توانائی کے جس بدترین بحران کا شکار ہے اگر پاک ایران گیس پائپ لائن بروقت فعال ہوجاتی تو یہ بحران نہ ہوتا انہوں نے کہا کہ ایران نے شیڈول کے مطابق اپنے حصے کی لائن بچھادی تھی ‘پاکستان نے اپنے علاقے میں لائن بچھاکر اسے ایران کی لائن سے جوڑنا تھا واشنگٹن نے پاکستان کو اپنے حصے کی لائن بچھانے سے کبھی نہیں روکا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دوران آنے والی حکومتوں نے مجرمانہ غفلت کیوں برتی؟انہوں نے کہا کہ بھارت سمیت کئی ممالک رعایت حاصل کرکے ایران سے تیل خریدنے کے علاوہ تجارتی منصوبوں پر کام کرتے رہے مگر اسلام آباد نان نیٹو اتحادی کے اسٹیٹس کو قومی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی بجائے معمولی فائدوں کے لیے استعمال کرکے خوش ہوتا رہا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آگے بڑھ کر فیصلہ کن کردار اداکرتے ہوئے ”سارک تعاون تنظیم“کو بحال کرکے ان منصوبوں کو اس کی چھتری کے نیچے لانا چاہیے اور فوری سارک کا اجلاس بلاکر خطے کے ممالک کے ساتھ باہمی تجارت اور اچھے تعلقات کے ساتھ نئے عہدکا آغازکرنا چاہیے.